گرین سیریز کا ناول نمبر 10 جلد ہی پبلش کیا جائے گا۔

#

Psycho Episode 5 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

 


 پانچویں قسط

 Psycho Episode 5 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

LEADING FROM FRONT: SAHIR DESTROYING EVERYTHING

گہرے اندھیرے کی وجہ سے ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اندھیرا خوا ہ مخواہ دل پر اپنی ہیبت طاری کر دیتا تھا۔ چار سائے سنبھلے ہوئے انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ہر ایک کی پشت پربیگ موجود تھا اور ہاتھوں میں برین گنین۔ سب نے چست لباس پہنے ہوئے تھے ۔ان کے چہرے بھی سیاہ نقابوں سے ڈھکے ہوئے تھےاور آنکھوں پر ہائی پاور نائٹ گاگلز موجود تھیں۔ان میں سے تین مرد تھے جبکہ ایک عورت تھی۔ اگرچہ وہ سنبھل سنبھل کر قدم رکھ رہے تھے مگر سب سے آگے موجود سایہ بڑے اعتماد کے ساتھ قدرے تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا ، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اس رستے سے بخوبی واقف تھا۔

"اگر تم لوگوں کی یہی سپیڈ رہی تو کل صبح کا ناشتہ ہم اپنے ٹارگٹ پر کریں گے۔" سب سے آگے موجود شخص نے کہا۔

"ساحر۔۔اگرتم جن ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سب بھی جن ہیں۔" نسوانی آواز میں اسے جواب ملا---آواز میں جھلاہٹ تھی۔

"تم جن کیسے ہو سکتی ہو۔۔تم تو جننی ہو۔۔بلکہ بھوتنی ہو۔" پہلےشخص نے جواب دیا ، سب کی ہنسی نکلی مگر وہ ہنسی کو دبا گئے۔

وہ ساحر تھا اور باقی اس کے ساتھی۔

" یہاں اتنا بڑ اسلحہ ا سمگلنگ کا اڈہ ہے اور کسی کو آج تک علم بھی نہیں ہوا؟" تیسرے نمبر پر موجود کبیرنے کہا۔

"آج تو علم ہو گیا ہے نہ---چیف کی نظروں سے تو نہیں چھپ سکا۔" ثانیہ نے جواب دیا۔

"مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ چیف وہاں آرمی کی مدد سے ریڈ کر سکتا تھا ،

پھرہمیں بھیج کر اڈہ تباہ کرانے کی کیا ضرورت ہے؟" ---دوسرے نمبر پر موجود جبران نے پوچھا۔

"یہ اڈہ سرحد کے بالکل ساتھ ، زمین کے نیچے آباد ہے، آرمی کا سرحد کے ساتھ اس طرح کا آپریشن دونوں ملکوں کے درمیان خدشات کو جنم دے سکتا ہے۔اب ہم تباہ کریں گے تو کل باقیات سے یہ بات ظاہر ہو جائے گی کہ وہاں زمین کے نیچے کیا ہو رہا تھا اور آرمی کی مداخلت بھی نہیں ہو گی۔"ساحر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

"مگر سرحد کے ساتھ ہی اب بھی دھماکے تو ہوں گے ، پھر؟"--- کیبر نے پوچھا۔

"پھر بھی آرمی کی نسبت اس کام میں کم پیچیدگی ہے۔آرمی کے آنے سے غلط  فہمی پیدا ہونے کی صورت میں جنگ کا خدشہ بھی ہے اور اگر دونوں اطراف کی حکومتوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی جائے تو اس آپریشن کی خبر اسمگلرز تک بھی ضرور پہنچ جائے گی پھر زمین دوز خالی اڈہ  ہی رہ جائے گا جس میں کرکٹ اسٹیڈیم بنا یا جا سکے گا۔"ثانیہ نے جواب دیا۔

"اس پر تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔" اچانک ساحر نے انتہا کی حیرت لہجے میں سموتے ہوئے کہا۔

"کس بارے میں ؟"--- جبران نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

"سٹیڈیم۔۔دنیاکا پہلا زمین دوز کرکٹ سٹیڈیم۔۔وہ بھی کسی کے خرچے سے بنا ہوااور سرحد کے بالکل ساتھ۔دونوں اطراف کے کھلاڑی بغیر جہازوں کا خرچہ اٹھائے---جب جی چاہا ، سائیکل پکڑی اور گراؤنڈ میں پہنچ گئے میچ کھیلنے۔کتنا مزہ آئے جب ہماری ٹیم سائیکل پر سوار میچ کھیلنے پہنچ جائے۔گیارہ کھلاڑی اور سائیکلیں ہوں نو---کپتان صاحب نے ایک کھلاڑی آگے والے راڈ پر بٹھایا ہو اور ایک پیچھے۔کھلاڑیوں کے سامان کے لئے پیچھے بیل گاڑی ہو جسے میچ کے ایمپائر ہانک رہے ہوں۔" ساحر نے نقشہ کھینچا تو سب دبی دبی ہنسی ہنسے۔

"سب سے بڑا فائدہ یہ ہو کہ اگر ٹیم ہار جائے تو قوم کا خرچہ نہ ہو۔واپسی بہت آسان۔" ساحر نے کہا اور ساتھ ہی اس نے ہاتھ کھڑا کر کے سب کورکنے کا اشارہ کیا۔

"اس سے آگے اب پہرے دار موجود ہیں۔ان سے نظر بچا کر آگے بڑھنا ہے، اگر کوئی سامنے آجائے تو اسے خاموشی سے ٹھکانے لگا دینا۔اس طرح ہم آسانی سے مطلوبہ جگہ تک پہنچ جائیں گے۔" ساحر نے ہدایات دیتے ہوئے کہا ۔سب  چوکنے ہو کر خاموشی سے آگے بڑھنے لگے۔

وہ سب چیف کی طرف سے دیئے گئے پہلے مشن پر کام کر رہے تھے جب اچانک چیف نے انہیں وہ مشن روک کر اس نئے کام میں لگا دیا تھا۔ انہیں مہیا کی گئی معلومات کے مطابق ان کا ٹارگٹ اسلحے کی سمگلنگ کا ایک بہت بڑا سٹور تھا، جسے بہت ہی رازداری سے زیرِ زمین بنایا گیا تھا۔ اس اسلحہ کو ملک کے خلاف دہشت گردی میں استعمال کرنے کے لئے سٹور کیا گیا تھا۔ چیف کی طرف سے اس سٹور کو تباہ کرنے کا حکم ملا تھا۔

وہ سب بڑی خاموشی سے اور چھپ چھپا کر ایک خاص مقام پرپہنچے۔ ساحر نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا اور خود اندھیرے میں گم ہو گیا۔ وہ تینوں وہیں کھڑے رہے۔ چند لمحوں بعد ساحر واپس آیا اور انہیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا تو وہ اس کےپیچھے پیچھے آگے بڑھتے گئے۔ ایک پہاڑی کے ساتھ بنے رستے پر چلتے ہوئے وہ ایک غار میں پہنچ چکے تھے۔ کبیر کو ساحر نے اشارے سے غار کے دہانے پر رکنے کا کہا اور خود باقی دونوں کےساتھ غار میں داخل ہو گیا۔

"چیف نے جو مجھے یہاں کی صورتحال بتائی تھی اس کے مطابق اب یہاں سے بہت ہی سخت سکیورٹی شروع ہو جائے گی۔ ہماری چھوٹی سے غلطی سب کو لے ڈوبے گی۔ سب الرٹ رہیں گےاور مجھ سے کم ازکم دس فٹ پیچھے رہیں گے تا کہ اگر مجھے کچھ ہو بھی جائے تو باقی سب بچ جائیں کیونکہ یہاں سے آگے باریک تاریں زمین کےساتھ تھوڑی بلند ی پرلٹکائی گئی ہیں جن میں بہت شدید قسم کا الیکٹرک کرنٹ گزر رہا ہے، میں اسے چیک کرکےتم لوگوں کے لئے رستہ بناتا جاؤں گا۔"ساحر نے کہا تو سب نے تشویش بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

"یہ چیکنگ میں کر لوں گا۔۔تم میرے پیچھے آ جانا۔" جبران نے کہا۔

"نہیں۔۔پلان نہیں بدلے گا۔" ساحر نے سخت لہجے میں کہا تو جبران نے چپ سادھ لی۔

"تاروں سے گزر کر ہماراسامنا پہرے داروں سے ہو گا۔ ابھی ہم جن پہرے داروں میں سے گزر کر آئے ہیں وہ بہت کم تھے، تاروں کے بعد تو سمجھو جیسے شہد کی مکھیوں کی طرح پہریدار ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں۔وہاں سے ہمیں کرالنگ کرنی پڑے گی۔ تم سب لوگوں کے سوٹ بہت خاص میٹریل سے بنے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے کرالنگ کے دوران جسم پہاڑی زمین کی رگڑوں اور چوٹوں سے محفوظ رہے گا۔ کرالنگ کرتے ہوئے بھی الرٹ رہنا  اورکچھ بھی ہو جائے کھڑے مت ہونا۔کرالنگ کرتے ہوئے ہمیں تقریباِِ تین سو میڑ تک کا فاصلہ طہ کرنا ہے، اس کے بعد ہم گوریلا اٹیک کریں گے۔جب ہم حملے کا آغاز کریں گے تو تم سب لوگ وہاں رہ کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ رکھو گے، میرا کام ہے ٹارگٹ پر بم فکس کرنا۔ پھر ہم جیسے یہاں پہنچے ہیں ویسے ہی واپس نکل جائیں گے۔کوئی سوال؟" ساحر نے پلان بتاتے ہوئے آخر میں سب سے پوچھا۔

"تم اکیلے زمین دوز اڈے میں کیسے گھسو گے؟ کیا پتہ وہاں کتنے لوگ ہوں ؟" ثانیہ نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔

"اڈے کے اندر داخل ہونے کی ضرورت ہی نہیں ۔چیف نے ایک خفیہ پوائنٹ بتا دیا ہے، میں بم کو ایکٹویٹ کر کہ اس مقام پر چھوڑ دوں گا، بم خود بخود زمین دوز اڈے میں پہنچ جائے گا۔اور ہاں۔۔یا د رہے۔۔پہرے دار فوجیوں کی وردیوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔کسی جگہ پر کنفیوز مت ہو جانا۔" ساحر نے آخر ی بات مسکراتے ہوئی کی تو سب نے اثبات میں سر ہلایا۔

انہوں نے تیزی سے ضروری اسلحہ تیار کیا اور ساحر کے پیچھے غار سے نکلے۔ ساحر کے ہاتھ میں ایک لمبا سا راڈ تھا جو اس نے ابھی ابھی بیگ سے نکالا تھا، جس میں پکڑنے والے ہینڈ ل کی جگہ پرچھوٹی سے مشین تھی ، جس میں ایک نہایت ہی کم پاو ر کا چھوٹا سا بلب تھا۔راڈ زمین سے مناسب فاصلے پر رکھے وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، اس کی نظریں اردگرد ماحول اور راڈ پرلگے بلب اور مشین پر بیک وقت جمی ہوئی تھیں۔اس کے ساتھی ہدایت کے مطابق اس سے دس فٹ کے فاصلے پر چلے آر ہے تھے۔ اچانک ساحر رکا تو وہ لوگ بھی رک گئے۔ساحر اب راڈ کو اوپر نیچے کر کے کچھ چیک کرنے میں مصروف تھا، تھوڑی دیر بعد اس نے سب کو اشارہ کیا تو وہ تیزی سے اس کے پاس پہنچ گئے۔

"یہاں وائر ہے۔دھیان سے اپنے پاؤں کو دو فٹ اونچا کر کے تار کو کراس کرنا۔اگر ذرا سا بھی تار کو چھوئے تو فوری موت۔" ساحر نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا جیسے وہ کوئی کہانی سنا رہا ہو لیکن یہ سن کر باقی تینوں کے جسموں نے جھرجھری لی۔ سب سے پہلے ساحر اٹھا اور ایک سیکنڈ میں وہ تار کی دوسری طرف پہنچ چکا تھا۔

"پاگل ہو تم۔آگ بجھانے جانا ہے جو یوں بے وقوفوں کی طرح جلدی کی۔" ثانیہ نے ڈانٹتے ہوئے کہا ، اسی وقت کبیر آگے بڑھا اور احتیاط سے تار کراس کی ، اس کے پیچھے جبران اور ثانیہ نے بھی جلد ہی تار کراس کر لی۔

"ابھی تاریں ختم نہیں ہوئیں۔مجھ سے دور ہی رہنا۔" ساحر یہ کہتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ پھر اسی طرح چیک کر کر کے وہ تقریباِِ آدھا گھنٹہ صرف کر چکےتھے اور چالیس سے زیادہ تاریں پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ساحر نے مشین کو دیکھ کر اطمینان بھر ا سانس لیا اور راڈ کو فولڈ کر کے بیگ کے ساتھ لٹکا لیا۔ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ کرنٹ والی تاریں ختم ہو چکی ہیں۔ سب نے سکون کا سانس لیا مگر ابھی بھی لاشعوری طور پر  انہیں لگ رہا تھا جیسے ہر طرف بجلی کی ننگی تاریں موجود ہوں۔اب کرالنگ کرنے کا وقت آ گیا تھا، وہ تیزی سے زمین پر لیٹے اور آگے بڑھے۔ وہ اسی طرح لیٹے لیٹے آگے بڑھتے جا رہے تھے، سب کی سپیڈ کافی تیز تھی لیکن وہ احتیاط برت رہے تھے کہ شور نہ ہو۔اچانک ثانیہ کی چیخ بلند ہوئی، سب کے جیسے اوسان خطا ہوئے۔

"کیا ہوا؟" ---ساحر نے پوچھا۔

"بہت بڑی چھپکلی ہاتھ کے نیچے آ گئی تھی۔" ثانیہ نے سہمے ہوئے انداز میں کہا۔

"چھپکلی تو گزر گئی لیکن تمہاری چیخ دور تک سنائی دے گئی ہوگی۔اٹھ کر سائیڈپرچھپ جاؤ۔ اب ردعمل دیکھ کر ہی آگے بڑھیں گے۔" ساحر نے کہا تو سب تیزی سے سائیڈوں  پر سمٹ گئے۔اونچے پہاڑ تو دور تھے--- وہ پتھروں کی اوٹ میں تھے۔قسمت نے ان کا ساتھ دیا تھا جو ساحر نے انہیں اٹھ کر سائیڈ پر ہونے کا کہہ دیا تھا، اسی وقت دوسری طرف سے کئی سر ابھرے۔نائٹ گاگلز کی وجہ سے وہ اندھیرے میں بھی دیکھ پا رہے تھے۔ آنے والے تعداد میں پانچ کے قریب تھے۔

"تم سب یہیں رہو۔جس کے ہاتھ کوئی آسانی سے لگتا ہو، وہ خاموشی سے اسے بے ہوش کر دے۔" ساحر نے کہا اور جھکے جھکے انداز میں آگے بڑھ گیا۔

"یہ پاگل تو نہیں۔اکیلا منہ اٹھا کر موت کے منہ میں گھس گیا۔"ثانیہ نے اضطراری کیفیت میں اچانک کہا۔

"وہ ایسا ہی ہے۔" کبیر نے جواب دیا۔ ان سب کی نظریں سامنے موجود لوگوں پر تھیں جو اب پھیل کر شکاری کتوں کی طرح ہر طرف چیکنگ کر رہے تھے۔پھر اندھیرے میں جیسے بجلی چمکتی ہے، کوئی چیز سنسناتی ہوئی آنے والے لوگوں کی طرف بڑھی اور  ان میں سے دو اوغ کی آواز کےساتھ زمین بوس ہوئے۔۔باقی تینوں چونک گئے اور تیزی سے زمین پر لیٹ گئے۔ ابھی وہ زمین پرلیٹے ہی تھے کہ ایک زوردار چیخ بلند ہوئی اور یکدم کسی نے مشین گن کا ٹریگر دبا دیا، پہاڑیوں کی وجہ سے فائرنگ کی آواز کی گونج دور تک پہنچی لیکن فوری ہی فائرنگ رک گئی اور ایک گھٹی گھٹی چیخ سنائی دی۔ اس کے بعد ہر طرف سکوت ہو گیا۔

"تیز ی سے آگے  بڑھو۔اب ہمیں گھیرا جائے گا۔جب تک کسی سےسامنا نہ ہو بکھرنا مت۔" ساحر کی آواز سنائی دی تو وہ پتھروں کی اوٹ سے نکل کر دوڑ پڑے۔ساحر نے پانچ لوگوں کو چند لمحوں میں بے کار کر دیا تھا مگر فائرنگ کی وجہ سے اب شب خون مارنے کا پلان ختم ہو چکا تھا۔

"تم لوگوں کا کام ہے آنے والوں کو مصروف رکھنا---باقی میں دیکھ لوں گا۔" ساحر نے کہا اور یکدم اس کے بھاگنے کی سپیڈ سب سے تیز ہو گئی، وہ سب حیرت سے اسے خود سے دور ہوتے دیکھ رہے تھے، کبیر اور جبران اسے پہلے جانتے تو تھے لیکن وہ بھی پہاڑی علاقے میں اس کی یہ رفتار دیکھ کر دنگ رہے گئے۔

"یہ ایف سکسٹین کب سے بن گیا ہے؟"--- جبران نے دوڑتے ہوئے کہا مگر اس سے پہلے کہ کوئی جواب دیتا سامنے سے اچانک فائر کھلا اور وہ تینوں دوڑتے دوڑتے زمین پر گر گئے۔ وہ ایسے گرے تھے جیسے ان کے پاؤں اٹک گئے تھے

مگر گولیوں سے بچنے کی ان کا مہارت بھرا انداز تھا۔گرتے ہوئے ہی انہوں نے گنز سنبھالیں اور رُول ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے دور ہو کر انہوں نے مورچے سنبھالے اور جوابی فائرنگ شرو ع کر دی۔

ساحر اس پر خطر پہاڑی رستے پر نہایت تیزی رفتاری سے دوڑے جا رہا تھا۔اس کے ذہن پر صرف ایک بات سوار تھی کہ جو بھی ہو جائے اپنا مشن مکمل کر نا ہے۔اس نے سامنے سے آنے والے افراد کو محسوس کر لیا تھا مگر وہ ان سے ٹکرانے کی بجائے رستہ بدل کر آگے ہی بڑھتا رہا۔ دو سے تین منٹ کی مسلسل دوڑ کے بعد وہ پہاڑوں کے درمیان وادی نما جگہ پہنچ گیا۔ پہاڑوں کے درمیان یہ ایک بہت بڑا چٹیل میدان تھا ۔ اسی میدان کے نیچے ،زمین کے اندر وہ اڈہ موجود تھا جسے تباہ کرنے وہ یہاں آئے تھے۔ساحر چند لمحوں کے لئے رک گیا۔ سامنے میدان میں ہر طرف سیاہ سائے لہرا رہے تھے ، یہ اس فائرنگ کا نتیجہ تھا جس کی آواز وہاں تک پہنچ گئی تھی اور وہ سب لوگ الرٹ ہو چکے تھے۔فائرنگ اب مسلسل جاری تھی اور یوں لگ رہا تھا جیسے دو فوجیں آپس میں لڑ پڑی ہوں، ایسا شاید پہاڑوں میں گونج پیدا ہونے کی وجہ سے تھا، ساحر نے ہونٹ بھنچ لئے۔اب اس میدان کی طرف جانا خود کشی کے مترادف تھا۔ساحر فوری لیٹ گیا اور لیٹتے ہی اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ چند لمحوں کے بعد جب ا س نے آنکھیں کھولیں تو اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ وہ آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے اٹھا اور میدان کے ساتھ موجود پہاڑوں کے ساتھ ساتھ دوڑنا شروع ہو گیا۔ ایک طویل چکر کاٹ کر وہ چٹیل میدان کی مشرقی سائیڈ پہنچ چکا تھا۔ نائٹ گاگلز کو آنکھوں سے ہٹا کر اس نے بیگ میں ہاتھ ڈالا اور رات میں استعمال کی جانے والی دوربین آنکھوں پر لگائی۔میدان کےدرمیان میں موجود افراد اب سامنے والے پہاڑی رستے کے قریب مورچہ بند کر چکے تھے، ساحر جہاں پہنچا تھا اس کے سامنے میدان خالی ہو چکا تھا۔میدان کے درمیان میں قدرتی طور پر پتھروں کے ملنے سے ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا۔ اس نے دوربین بیگ میں ڈالی اور گاگلز کو آنکھوں پر سیٹ کیا اور لیٹ کر وہ سینے کے بل آگے بڑھتا گیا۔وہ کسی سانپ کی طرح آگے بڑھتا جا رہا تھا۔اس کا رخ چٹیل میدان کے درمیان چبوترے کی طرف تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ چبوترے کے قریب پہنچ چکا تھامگر اس سے پہلے کہ وہ چبوترے کی اوٹ میں ہوتا، ایک لمبا تڑنگا شخص وہاں آ کر چبوترے پر پاؤ ں رکھ کر کھڑا ہو گیا۔ساحر نے اپنی رفتار کم کر لی مگر پیش قدمی جاری رکھی۔ چبوترے کے ساتھ موجود شخص بھی شاید پتلے کانوں کا مالک تھا اس نے ساحر کی آہٹ پا لی اور تیز ی گن تانی، اس سے پہلے کہ وہ فائر کرتا، ساحر کی پشت پر موجود بیگ، جو اب اس کے ہاتھ میں پہنچ چکا تھا، اڑتا ہوا اس شخص کے منہ پر لگا اور وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہٹا۔ساحر اچھلا، اس کی لات گھومتی ہوئی اس شخص کی کنپٹی کی طرف بڑھی۔ وہ شخص ساحر کی توقع سے زیادہ پھرتیلا نکلا، اس نے سر جھکا کر ساحر کی لات سے خود کو بچایا، جیسے ہی ساحر کی لات اس کے سر پرسے گزری اس نے قدم بڑھا کر سائیڈ کک---ہوامیں موجود ساحر کی پشت پر ماری اور ساحر ہوا میں بلند ہوکر زمین کی طرف واپس آیا، گرنے کی بجائے اس کا جسم گھوماوہ اس کا سر اس شخص کی ناک سے  ٹکرایا اور کٹک کی آواز سنائی دی، اس کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ساحر کی قدم جیسے ہی زمین سے ٹکرائے، اس کا زور دار مکا، سر جھٹکتے ہوئے اس شخص کے پیٹ میں لگا، وہ درد سے ڈکراتے ہوئے جھکا،اس طرح جھکنا اس کی بھیانک غلطی بن گیا۔ ساحر کا گھٹنا تیزی سے اس کے سر کی طرف بڑھا اور تڑاخ کی آواز بلند ہوئی ساتھ ہی وہ شخص چکرا کر زمین پہ آرہا، ساحر کی ٹانگ تیزی گھومی اور وہ شخص کنپٹی پر ضرب کھا کر ساکت ہو گیا۔ ساحر تیزی سے اپنے بیگ کی طرف بڑھا۔ بیگ سے اس نے ایک چھوٹی سے مشین نکالی اور اس چبوترے پر فٹ کر اس کے بٹن دبانے میں مصروف ہو گیا۔ وہ مشین کو لے کر پورے چبوترے پر تیزی سے گھومتا ہوا ایک خاص جگہ پر رک گیا۔ مشین پہ جلنے والا چھوٹا سا سبز نقطہ اب سرخ نظر آرہا تھا۔ ساحر نے مشین بیگ میں ڈالی اور واچ ٹرانسمیٹر پر اپنے ساتھیوں کو کاشن دے کر اس نے ایک ڈرل مشین کی طرح کی مشین نکالی جس کے سامنے ڈرلنگ راڈ لگا ہوا تھا۔ چبوترے پر وہ راڈ رکھتے ہوئے اس نے بٹن دبایا تو بے آواز انداز میں وہ راڈ گھوما، وہ چھوٹی سے بے آواز مشین حیرت انگیزطور پر چبوترے کے پتھروں کو چیرتی جا رہی تھی اور ہر ایک سیکنڈ میں مشین کا راڈ چبوترے میں گھستا جا رہا تھا۔جب پورا راڈ چبوترے میں گھس گیا تو ساحر نے اسے مشین بند کر کے راڈ کو واپس کھینچ لیا اور مشین بیگ میں رکھ لی۔ اس نے بیگ کی ایک چھوٹی سے خفیہ زِپ کھولی ، اس میں سے ایک چھوٹا ، مگر لمبوترا سیل نما آلہ نکال کر اسکی سائیڈ پر لگا بٹن پریس کر کے چبوترے پر بنے ہوئے سوراخ میں ڈال دیا اور تیزی سے واپس روانہ ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں کامیابی کی چمک تھی۔

اس بار اس کا رخ ---جدھر سے وہ اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر آیا تھا، اس کی مخالف سمت میں تھا۔ اس نے ساتھیوں کو دوبارہ کاشن دے دیا تھا اور اندھا دھند بھاگتا گیا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کےپیچھے پاگل کتے لگ گئے ہوں ۔ تیس منٹ کی جان توڑ دوڑ کے بعد وہ اس میدان کی عقبی طرف موجود پہاڑ کے کی چوٹی پرموجود تھا۔وہ بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا وہ بے چین ہو رہا تھا۔ اسی وقت ہیلی کاپٹر کی آواز سنائی دی جو پہاڑی کے عقب کی طرف سےبلند ہو رہا تھا۔ ساحر کے چہرے پر طمانیت پھیل گئی۔ کچھ منٹوں میں وہ ہیلی کاپٹر سے پھینکی گئی رسی کے ساتھ لٹک کر ہیلی کاپٹر میں پہنچ چکا تھا جہاں اس کے تینوں ساتھ موجود تھے۔ پائلٹ سیٹ پر کوئی انجان شخص بیٹھا ہوا تھا۔

"کیا ہوا؟" ---جبران نے پر اشیاق لہجے میں پوچھا۔

"یہ ابھی کنفرم نہیں۔۔تین آپشنز ہیں۔" ساحر نے جواب دیا۔

"تین  آپشن؟ کیا مطلب  ہےتمہارا؟"--- ثانیہ نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔

"لڑکا۔۔لڑکی۔۔۔اور تیسرا تم لوگ جانتے ہو۔۔جو بھی ہوا نام میں ہی رکھوں گا۔" ساحر نے اسی سنجیدگی سے کہا  تو فلک شگاف قہقہہ بلند ہو جس میں ثانیہ کی شرمندگی سے بھری ہنسی شامل تھی۔

"تمہار ا دماغ زیادہ ہی خراب ہوتا جا رہا ہے۔" ثانیہ منہ بنایا۔

"میرا  دماغ  بچپن سے خراب ہے۔" ساحر نے اسے چڑاتے ہوئے کہا تو ثانیہ نے منہ پھیر لیا۔

"منہ اتنا بڑا نہ پھلا لینا کہ ہیلی کاپٹر سے باہر نکل جائے یا ہیلی کاپٹر ہی اسکے وزن سے گر جائے۔" ساحر نے کہا مگر ثانیہ نے جواب نہ دیا۔جبران اور کبیر کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ تھی۔

"کام ہو گیا۔۔آدھے گھنٹے تک آل کلیئر ۔" ساحر نے کہا تو سب کے چہروں پہ رونق ابھرآئی۔

اسی طرح کی نوک جھوک میں وہ شہر کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔ ہیلی کاپٹر کا رخ دیکھ کر ساحر چونک پڑا۔ اس کارخ گرین ہاؤس کی جانب تھا۔ ساحر نے گہری نظروں سے پائلٹ کا جائزہ لیا۔ یہ عجیب بات تھی کہ کوئی عام سا پائلٹ گرین ہاؤس کے بارے میں جانتا ہو ۔ ساحر مصلحت اندیشی کی وجہ سے پائلٹ کو مخاطب بھی نہیں کر رہا تھا، دو سےتین  منٹ کے بعد ہیلی کاپٹر گرین ہاؤس پر منڈلا رہاتھا مگر پائلٹ اسے نیچے نہیں اتار رہا تھا۔ سب نے عجیب سی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

 اچانک فضا میں ایک جہاز کی آواز گونجی جو شاید نیچی اڑا ن اڑ رہا تھا، اس وقت ہیلی کاپٹر کو جھٹکا لگا او ر وہ یکدم ٹوٹے ہوئے ستارے کی طرح نیچے گرنا شروع ہوا۔ وہ سب ہیلی کاپٹر میں ادھر ادھر ٹکرا رہے تھے، ساحر نے پائلٹ سیٹ کی طرف دیکھا تو اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔پائلٹ ساکت و جامد اپنی سیٹ پر موجود تھا جیسے وہ گہری نیند میں ہو۔ ہیلی کاپٹر تیزی سے گرین ہاؤس کی عمارت کی طرف بڑھتا گیا اور ایک منٹ سے بھی کم وقت میں وہ ایک دھماکے سے گرین ہاؤس کی عمارت سے ٹکرایا، ابھی یہ گونج کم نہیں ہوئی تھی جب ایک مقامی ائیر لائن کا پیسنجر طیارہ ڈولتا ہوا سیدھا گرین ہاؤس سے ٹکرایا اور ایک کان پھاڑ دھماکہ ہوا جس کے بعد ہر طرف گرد ہی گرد پھیل گئی۔

اس دھماکے کی وجہ سے بستروں میں گھسی ہوئی عوام ہڑبڑا کر اٹھی اور اپنے چھتوں پر پہنچ گئی۔ ہر کسی کو آگ کے بلند

ہوتے شعلے اور سائرنوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔گرین سروس  کو ایسے تہہ در تہہ نیست و نابود کیا گیا تھا کہ ان کے جسم کی بوٹی بھی نہ ملتی۔

ابھی گرین ہاؤس میں لگی آگ قابو میں نہیں آئی تھی کہ دور کہیں زوردار دھماکے ہونا شروع ہوئے جو مسلسل بڑھتے جا رہے تھے۔ لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا اور وہ سب سہمے ہوئے بچوں کو سنبھالے گھروں میں دبک گئے جیسے باہرنہ نکلنے کی قسم کھا لی ہو۔ ہر کسی کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا۔ پڑھے لکھے لوگ ٹی وی آن کر کے اس کے سامنے بیٹھے تازہ خبروں کا انتظار کر رہے تھے اور ان کا یہ انتظار ختم ہو گیا۔

ٹی وی گرین ہاؤس، اس سے ٹکرانے والے ہیلی کاپٹر اور طیارے کے ساتھ ساتھ ایک اور سنسنی خیز خبر چل رہی تھی۔

ملک کی سرحد پر ایک زیرِ زمین اڈہ تباہ کر دیا گیا تھا، جس کے بارے میں بتایا جارہا تھا کہ وہ اسلحہ سمگلنگ کا بہت اہم اڈہ تھا، مگر اب تک اس سلسلے میں کوئی مجرم سامنے نہیں آیا تھا۔ سرحد کے پاس ایسا دھماکا۔۔دو ملکوں کے درمیان باہمی کشیدگی گہری کر سکتا تھا، اس بات پر ہر طرف چہ مگوئیاں ہونے لگ گئی تھیں۔

 

ϴ ⃝


"ہاہاہاہا۔۔ہاہاہاہا۔۔ہاہاہاہا۔۔ مزہ آ گیا۔۔ہاہاہاہا۔۔" روشن پیلس کے درو دیوار سائیکو کے پاگل پن سے گونج رہے تھے۔ وہ اس وقت روشن پیلس کی چھت پر موجود کانوں میں ہیڈ فونز لگائے خبریں سن رہا تھا ۔نیوز اینکر کے مطابق  دارالحکومت میں ایک عمارت پر ہوائی جہازاور ایک ہیلی کاپٹر ---ایک ساتھ گرے تھے،ساتھ ہی ساتھ سرحد کے پاس ہونے والی تباہی کا بھی ذکر تھا۔ رات گئے سارے شہر جاگ چکا تھا اور اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا ہوا تھا۔سائیکو یہ خبریں سن کر جھوم اٹھا تھا۔

وہ اس وقت لارڈ کے میک اپ میں تھا اور اس کے لباس سےاندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ کہیں جانے کی تیاری میں ہے۔سائیکو کے قریب ہی پیزا کا ایک بہت بڑا باکس پڑا ہوا تھا جس میں سے وہ کافی زیادہ پیزا تو کھا چکا تھا ، باقی چند ایک ٹکڑے پڑے تھے۔دائیں ہاتھ سے وہ پیزا کھانے میں مصروف تھا جبکہ بائیں ہاتھ پردستانہ موجود تھا۔ وہ پتلے سے جنگلے کے اوپر ایسے کھڑا تھا جیسے زمین پرموجود ہو، عام تو عام---تربیت یافتہ انسان اتنی اونچائی پرموجود اس طرح جنگلے پر کھڑا نہیں ہوتا جیسے وہ انجوائے کر رہا تھا۔

سائیکو نے لارڈ کے ذہن سے جو معلومات حاصل کی تھیں ان کے مطابق ــــــ میڈیا سرحد پرہونے والی جس تباہی کو اسلحہ کا گودام بتا رہا تھا، وہ دراصل ایک بہت ہی جدید سائنسی لیبارٹری تھی جس کی تباہی کی وجہ سے ملک کا بہت بڑا نقصان ہو چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کے ایک طرف گرین سروس دفن ہوئی تھی تو دوسری طرف ملک تحفظ داؤ پر لگ چکا تھا، اس سب کے پیچھے ایک ہی شخص تھا--- سائیکو--- اوروہ اسی بات کا جشن منا رہا تھا۔

وہ اس وقت دو طرفہ کامیابیاں سمیٹ رہا تھا، ایک طرف ملک کو تہس نہس کرتے ہوئے اپنا پرانا معائدہ پورا کر رہا تھا تو دوسری طرف اپنے  یعنی لارڈ کے وجود کو اس ملک کے لئے مزید ضروری ظاہر کرنا چاہا رہا تھا۔

جبران اور کبیر ،زبیر سے ملنے والی معلومات کے مطابق سائیکو کے ہی لوگوں پرحملہ کرنے والے تھے۔ اس کام میں ساحر اور ثانیہ بھی ان کے ساتھ مل گئے تھے، عین وقت پر سائیکو نے لارڈ کے طور پر ان سے رابطہ کیا تو اس پر یہ راز آشکار ہوا کہ گرین سروس تو اسی کے لوگوں کی جان کی دشمن بنی پھر رہی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ اگر انہیں روکا نہ گیا تو وہ سائیکو کے سیٹ اپ کو تباہ کردیں گےمگر وہ بطورِ چیف گرین سروس کو اس آپریشن سے منع تو نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اصل لارڈ نے انہیں یہ مشن سونپا تھا جسے یہ بات زیب نہیں دیتی تھی کہ وہ کسی مشن سے ہٹ جاتا، اس وجہ سےسائیکونے الگ ہی چال چلی۔

 ملک کی اہم ترین لیبارٹریز میں سے ایک لیبارٹری، جو دشمنوں کو ڈاج دینے کی خاطر سرحد کے قریب ہی بنائی گئی تھی، اس نے گرین سروس کی نظر میں اسے اسلحہ سمگلنگ کا اڈہ بنا کر پیش کیا اور انہیں بطور چیف – اس اڈے کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔

اس طرح کی لیبارٹری عموماََ سرحد کی قریب بنائی ہی نہیں جاتی ، اس عام نظریہ کی پٹی---مخالفین کی نظروں پر باندھ کر حکومت نے وہ لیبارٹری سرحد کے پاس بنا دی گئی جہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لیبارٹر ی اتنی رسکی جگہ پر بن سکتی ہے۔ اس رسک زدہ لیبارٹری  کو راز رکھنے کے لئے حکومت کو بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ سرحد سے بہت دور تک طویل اور بہت بڑی سرنگ کھود کر لیبارٹری تیار کی گئی تھی، بعد میں اس سرنگ کو ریڈ بلاکس کے ساتھ بھر دیا گیا تھا تاکہ کوئی بھی شخص اس رستے سے لیبارٹری میں نہ گھس سکے۔ لیبارٹری کی حفاظت کا کڑا انتظام تھا مگر ان انتظامات کو بہت چھپ چھپا کر سنبھالاجاتا تھا تاکہ سر حد پار اصل بات کی بھنک نہ لگے۔ساحر نے جس چبورترے میں سوراخ کر کے سیل نما بم ڈالا تھا ــــــ سائیکو کی معلومات کے مطابق اصل میں وہ لیبارٹی کے عین اوپر تھا، اور وہ چبوترہ تھا بھی مصنوعی۔ اس چبوترے کے ذریعے لیبارٹر ی میں ہوا کھینچنے کا انتظام تھا۔ سیل نما بم---وزن میں بہت ہلکا ہونے کی وجہ سے لیبارٹری میں لگے وِنڈ سککنگ سسٹم کی وجہ سے اڑتا ہوا لیبارٹر ی کے اندر گھسا اور مخصوص وقت پرپھٹ گیا۔ساحر کو مہیا کردہ اس مخصوص بم کوسائیکو نے خود خاص طور پر ایسے میٹریل میں پیک کیا  تھا جسے کوئی بھی حفاظتی انتظام چیک نہ کر سکتا تھا۔

گرین سروس جب اس مشن سے واپس آرہی تھی تو ان کو لانے والے ہیلی کاپٹر کا پائلٹ اور گرین ہاؤس پر گرنے والے طیارے کا پائلٹ---دونوں ہی سائیکو کے ٹرانس میں تھے۔ انہوں نے وہی کیا جو ان کے دماغ میں فیڈ کیا گیا تھا۔

سائیکو اب تک اس ملک کوناقابلِ تلافی نقصانات پہنچا چکا تھا۔اس نے لارڈ کو اغواء کر کے اس سے بہت کچھ معلوم کر لیا  تھا، ایک بہت اہم فارمولا ہتھیا چکا تھا اور حال ہی میں ملک کی اہم ترین لیبارٹری اور اہم ترین خفیہ ادارے کے ارکان کو دفنا چکا تھا۔ لارڈ کو اغواءکر کے اس نے طویل بے ہوشی کا انجکشن لگا دیا تھا اور پھر دن بھر اپنے کاموں میں مصروف رہنے کے بعد اس نے رات گئے لارڈ کو ٹرانس میں لانے کا عمل شروع کیا تھا۔ لارڈ سے معلومات نکال کر وہ صبح صادق کے وقت روشن پیلس میں جم رہا اور پھر لیبارٹر ی سے فارمولا نکلوانے کے بعد اس نے گرین سروس کو استعمال کرتے ہوئے لیبارٹری تباہ کی اور پھر گرین سروس کو استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا۔

وہ جنگلے پربازیگروں کی طرح بانہیں دونوں سائیڈ پرپھیلائے چل رہا تھا جب اس کی نظر نیچے جلتے سرخ رنگ کے ہلکی پاور کے بلب پرپڑی۔ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری جیسے وہ جانتا ہو کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ اس نے باقی بچے ہوئے پیزا کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور اسے بائی بائی کرتا ہوا جنگلے سے کود گیا۔نیچے کودتے ہوئے اس کہ منہ سے خوشی بھری قلقاری نکلی جیسے چھوٹے بچے کو کچھ من پسند چیز مل گئی ہو۔ اس نے دستانے والا ہاتھ بڑھا کر سامنے لٹکی  سیاہ رسی کو پکڑا تو اس کے جسم کو زور دار جھٹکا لگا اور زمین سے چند فٹ اوپر وہ اچانک رک گیا۔ رکتے ہی اس نے رسی چھوڑی اور زمین پر آرہا۔ یہ اس کی خود تیار کی گئی لفٹ تھی جس کی مدد سے وہ سیکنڈز میں چھت سے نیچے پہنچ جاتا تھا۔ وہ سرخ بلب اب بجھ چکا تھا ، اس کے باوجود وہ تیز قدم اٹھاتا ہوا زیرو روم پہنچ گیا۔سامنے  کمرے کے وسط میں موجود جہازی سائز کی میز پر لارڈ کا مخصوص سنہرا نقاب موجود تھا۔سائیڈ ٹیبل پر موجود فون کی گھنٹی بجی تو اس نے جھپٹ کر ریسیور اٹھا لیا۔ باہر موجود سرخ بلب شاید اسی کال کی وجہ سے جل رہا تھا۔

" لارڈ سپیکنگ----" اس نے لارڈ کے غراہٹ بھرے لہجے میں کہا۔

"سر---پریذیڈنٹ ہاؤس میں میٹنگ کال کی گئی ہے۔ چالیس منٹ میں پہنچ جائیں۔" دوسری طرف سے ایک مودبانہ آواز سنائی دی۔

"اوکے---" اس نے کہا اور ریسیور رکھ دیا۔ ریسیور رکھتے ہی اس نے لارڈ کے نقاب کی طرف دیکھا۔

"چلو مسٹر لارڈ---اگلے حملے کا وقت آ گیا۔ہاہاہاہاہا---ہاہاہاہا---اس ملک کے لئے یہ رات --- ہمیشہ سیاہ رات کے نام سے یاد کی جائے گی۔" اس نے قہقہہ لگا کر چہرے کو نقاب میں ڈھکتے ہوئے کہا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

 

چھٹی قسط کے لئے

کلک کیجئے

پی ڈی ایف میں مکمل ناول حاصل کرنے کے لئے 250 روپے ایزی پیسہ کر کے واٹس ایپ پر رابطہ کیجئے۔

03435941383 (واٹس ایپ+ ایزی پیسہ)

(تبصرہ/رائے کے اظہار کے لئے  لنکس)

www.facebook.com/groups/ibnetalib

 

ناول کے تمام کردار، مقامات، واقعات فرضی ہیں اور مصنف کی اپنی تخلیق ہیں۔ جن میں کسی بھی قسم کی کلی یا جزوی مطابقت محض اتفاقیہ امر ہو گا جس کا مصنف ذمہ دار نہیں ۔

ناول کے کسی بھی حصے کو کاپی کرنا، نقل کرنا یا چوری کرنا قانوناََ  اور اخلاقی جرم ہے ۔ جملہ حقوق  اللہ عزوجل اور اس کے پیاروں کے بعد بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔

 


Post a Comment

0 Comments