گرین سیریز کا ناول نمبر 10 جلد ہی پبلش کیا جائے گا۔

#

Psycho Episode 4 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

Psycho Episode 4 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

WAY TO ACTION: KABIR AND JIBRAN


  چوتھی قسط

کبیر اور جبران پرنس گیم کلب میں موجود تھے۔ وہ ایک میزپر بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ یہ ایسا گیم کلب تھا جس میں  گیمز کے علاوہ کافی اور شراب وغیرہ کے لئے الگ الگ ہالز مختص کئے گئے تھے۔جو لوگ گیم سے اکتا جاتے وہ ریفریش ہونے کے لئے ان ہالز کا رخ کرتے تھے۔ کبیر اور جبران بھی ابھی ابھی گیم ہال سے نکل کر وہاں پہنچے تھے۔  وہ دنوں میک اپ میں تھے۔سلیم  سے پرنس کلب او رزبیر کے بارے میں معلومات ملنے کے بعد ساحر خود پرنس کلب آنا چاہتا تھا لیکن جبران نے منع کر دیا اور اس نے یہ آفر کی کہ وہ اور کبیر زبیر کو اٹھا لاتے ہیں۔ساحر یہ آفر مان گیا لہذا کلب میں پہنچتے ہی وہ دونوں پہلے گیم روم میں گئے اور اب ہال میں بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ اس کے بعد ان کا ارادہ زبیر تک پہنچنے کا تھا۔

"زبیر تک کیسے پہنچیں گے؟" کبیر نے کافی کو گھونٹ گلے سے نیچے اتارتے ہوئے پوچھا۔

"ہم بھی ایک کلب کھولنا چاہتے ہیں، زبیر کا کلب ہمیں بہت پسند آیا ہے، اس کی تعریف اور زبیر سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔" جبران نے جوا ب دیا۔

"پلان تو اچھا ہے ، لیکن کیا وہ اس طرح ملنے پر تیار ہو جائے گا؟" کبیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"اس بات پر نہ تیار ہوا تو فائرنگ والا آپشن بھی ہے۔" جبران نے کہا۔

"فائرنگ کی تو یہاں سے نکلیں گے کیسے؟" کبیر نے پوچھا۔ کبیر نجانے کیوں خود کچھ پلان کرنے کے سب کچھ جبران سے پوچھ رہا تھا۔

"گیم کلب سے جب واش روم گیا تھا تب میں نے ایک ویٹر سے معلومات لے لی تھیں۔ فائر ڈور موجود ہے ،وہاں سے نکلیں گے۔"جبران نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"اور اگر اسی ویٹر نے کسی سے ذکر کر دیا تو؟" کبیر نے چونک کر پوچھا۔

"نہیں ۔۔ایک تو اسے بھاری رقم دی ہے دوسرا میں نے اسے کہا ہے کہ میں اپنے پارٹنر کے ساتھ چوری چوری نکلنا چاہتا ہوں۔۔یہ بات کرتے ہوئے میں نے آنکھ بھی ماری۔۔جس سے اس نے میرے پارٹنر کا تصور خود ہی ذہن میں بنا لیا۔" جبران نے کہا تو کبیر ہنس پڑا۔ ویٹر یقیناََ یہ سمجھا تھا کہ جبران کسی لڑکی کی بات کر رہا ہے۔

"گڈ۔۔پھر تو سب آسانی سے ہو جائے گا۔ میں گاڑی لے آؤں پھر  فائر ڈور کے پاس؟" کبیر نے پوچھا۔

"ہاں۔۔عقبی طرف ہی کھلتا ہے۔۔تب تک میں زبیر سے ملنے کا وقت لیتا ہوں۔" جبران نے کہا تو کبیر اثبات میں سر ہلاتے ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ جبران نے بھی بل اداکرنے کے بعد کاؤنٹر کا رخ کیا۔ کاؤنٹر پر ایک خوبصورت لڑکی موجود تھی۔

"ہیلو۔۔" جبران نے اخلاق بھرے لہجے میں کہا۔

"ہیلو سر۔۔میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں؟" لڑکی نے کاروباری انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔

"یہ کلب۔۔اس کے انتظامات اور سٹاف۔۔بہت ہی اچھا ہے۔۔ہمیں یہ سب بہت پسند آیا ہے۔کلب کا مالک کون ہے؟" جبران نے باوقار لہجے میں کہا۔اس نے لفظ سٹاف کو معنی خیز انداز میں لمبا کھینچا تھا۔

"سر۔زبیر صاحب باس ہیں۔اس انداز میں تعریف کےلئے شکریہ۔" لڑکی   نے مسکراتے ہوئے کہا، وہ جبران کی بات میں چھپی ہوئی اپنی تعریف پرخوش نظر آ رہی تھی۔

"ہم بھی یہاں ایک کلب کھولنا چاہتے ہیں۔ہمارا تعلق گریٹ کنگڈم کی ایک ہوٹل چِین دی رائل ہوٹل سے ہے۔کیا ہماری ملاقات زبیر صاحب سے ہو سکتی ہے؟ اتنے اچھے انتظامات پر مبارکباد تو ان کا حق ہے۔۔اور ان سے مفید مشورہ بھی مل جائے گا۔" جبران نے کہا۔اس نے گریٹ کنگڈ م کی ایک مشہور ومعروف ہوٹل چِین کا نام ایویں ہی لے دیا۔

"سر میں باس سے پتہ کرتی ہوں اگر وہ فارغ ہوں تو---" لڑکی نے کہا

اور جبران نے اثبات میں سر ہلایا۔لڑکی نے انٹرکام کا ریسیور اٹھا کر نمبر ملایا۔

"باس۔کاؤنٹر پر ایک شخص آئے ہیں۔۔وہ دی رائل ہوٹل ۔۔گریٹ کنگڈم سے متعلق ہیں، انہیں کلب بہت پسند آیا ہے اور وہ کسی کاروباری سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔" لڑکی نے مختصر الفاظ میں بات کرتے ہوئے کہا۔

"یس سر۔۔میں بتا دیتی ہوں۔" لڑکی نے جواب سن کر کہا اور ریسیور رکھ کر وہ جبران کی طرف متوجہ ہوئی۔

"باس نے کہیں جانا ہے، اس وجہ سے پانچ منٹ کی اجازت ملی ہے۔باس وقت کے بہت پابند ہیں۔" لڑکی نے کہا۔

"نو پرابلم۔۔کافی ہے وقت۔۔" جبران نے مسکرا کر کہا، تب تک کبیر بھی وہاں پہنچ چکا تھا۔ وہ دونوں زبیر کا آفس پوچھ کر لفٹ میں سوار ہوئے۔ لفٹ میں اور  بھی لوگ ہونے کی وجہ سے وہ دونوں خاموش ہی رہے۔لفٹ سے نکل کر وہ ایک کمرے کی سامنے پہنچے۔ اور دروازے پر دباؤ ڈال کر اندر داخل ہوئے۔ یہ درمیانے سائز کا کمرہ تھا جس کی سجاوٹ کسی ماہرانٹیرئیر ڈیکوریٹر نے کی ہوئی تھی۔ کمرہ بہت پرسکون او رخوبصورت تھا۔ کمرے کے وسط میں ایک سمارٹ سے ادھیڑ عمر شخص براجمان تھا۔ اس کے سامنے جہازی سائز کی میز تھی۔جبران او ر کبیر دونوں میزکی دوسری طرف پہنچے اور جبران نے مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھا۔

"ہیلومسٹر زبیر۔میرا نام شکور ہے اور یہ میرا ساتھی ہے ارشاد"۔ جبران نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"خوشی ہوئی آپ لوگوں سے مل کر۔میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟" زبیر نے کاروباری انداز میں بات کرتے ہوئے پوچھا۔

"ہم آپ کے انتظامات سے بہت خوش ہوئے ہیں۔جس طرح سے آپ نے سب کچھ سنبھالا ہے۔"جبران نے کہا۔

"ہمارا بس ایک ہی موٹو ہے، کوئی گاہک بھی ناراض نہ ہو۔" زبیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"بالکل۔آپ سو فیصد درست کہہ رہے ہیں۔آپ کی اسی سوچ کی وجہ

سے تو ہم اتنی مشکل سے آپ تک پہنچے ہیں۔"جبران نے کہا تو کبیر الرٹ ہو گیا۔

"سوری۔میں سمجھا نہیں۔" زبیر نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔

"آپ نے اپنے گاہکو ں کی خوب خدمت کی ہے، بہت مشکل سے آپ کا کلیو ملا ہے۔قومی سیکریٹریٹ کے سلیم  سے جو کارڈ ایشو کروائے تھے وہ کن کے لئے تھے؟"--- جبران نے کہا تو کبیر تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا اور دروازہ اندر سے لاک کر دیا۔ اسی دوران جبران اٹھ کر ریوالور تانتے ہوئے زبیر کے سر پرپہنچ چکا تھا۔

"کمرہ ساؤنڈ پروف ہی ہے، یہاں ہی کام ختم کرو۔" کبیر نے کہا۔

"تم لوگ کس بارے میں بات کر رہے ہو؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔"

"سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں ۔تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں ان لوگوں کے بارے میں بتاؤ جنہیں تم نے وہ کارڈز ایشو کروائے ہیں۔۔بس۔" جبران نے اس کی کرسی کو میز سے دور کھینچتے ہوئے کہا۔ کرسی کےنیچے پہئے لگے ہونے کی وجہ سے کرسی بغیر کسی پریشانی کے میزسے دور ہوتی چلی گئی۔

"تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔" زیبر نے پراعتماد لہجے میں کہا۔

"مسٹر ارشاد ــــــ کچھ ارشاد فرمائیں۔" جبران نے کبیر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔کبیر نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ جب اس کا ہاتھ جیب سے نکلا تو اس کے ہاتھ میں ایک شیونگ بلیڈ تھا۔ بلیڈ پیکنگ میں ہی تھا ، اس نے شاید اسی کام کے لئے خریدا تھا۔

"واہ۔۔چلتا پھرتا حمام۔حجامت ہونے والی ہے۔" جبران نے مسکراتے ہوئے کہا۔کبیر نے بلیڈ پیکنگ سے نکالا اور زیبر کی طرف بڑھا۔

"میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔مجھے کچھ بھی معلوم نہیں۔" زیبر کی زبان بلیڈ اور کبیر کے تیور دیکھ کر لڑکھڑا گئی مگر کبیر رکا نہیں، وہ زیبر کے پاس پہنچا، اس کا ہاتھ پکڑ کر کلائی پر نبض والی جگہ بڑا سا کٹ لگا دیا ۔ زبیر کے منہ سے سسکاری نکلی۔

"بس۔۔اتنا سا کام تھا۔۔اب اگر تم ہمارے سوالوں کا جواب دے دو تو بروقت طبی امداد ملنے سے تمہاری زندگی بچ جائے گی، ورنہ جس طرح کا میں نے کٹ لگا دیا ہے، خون نہیں رکے گا اور تمہاری موت واقع ہو جائے گی۔اس بات کا کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے، سب کو یہی لگے گا کہ تم نے خود کشی کی ہے۔"

کبیر نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا، جبران کے چہرے پر اس کے لئے تحسین بھرے تاثرات ابھرے۔اسے کبیر کا یہ طریقہ ِ تشدد پسند آیا تھا۔ اس نے زیبر پر طاقت اور وقت ضائع کئے بغیر ہی اسے موت کے خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔

"مم۔۔میں کچھ نہیں جانتا۔۔" زبیر نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

"اوکے۔۔ہم تمہاری موت تک ادھر ہی انتطار کریں گے۔۔شاید تمہیں کچھ یاد آ جائے۔" جبران نے مطمن لہجے میں کہا تو کبیر سر ہلاتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گیا۔ جبران نے بھی ریوالور تھامے ہوئے ایک کرسی کو قریب گھسیٹ لیا اور اس پر براجمان ہو گیا۔

"پلیز۔۔ڈاکٹر کو بلاؤ۔۔خون نہیں رک رہا۔" زیبر کی رنگت تبدیل ہو رہی تھی۔ اس کی رنگت تبدیل ہونے کی وجہ خون کا بہنا نہیں، بلکہ موت کا خوف تھا۔

"سوری۔۔ہمارے سوالات کے جواب دو۔۔پھر اگلی بات ہو گی۔" جبران نے سر د لہجے میں جواب دیا تو زیبر نے نفرت بھرے انداز میں اس کی طرف دیکھا مگر وہ لاتعلق ہو کر آپ میں گپ شپ میں مصروف ہو گئے جیسے کمرے میں وہ دونوں اکیلے ہوں جب کہ زیبر کا خون مسلسل بہہ رہا تھا۔

"مم۔۔مم۔۔میں بتاتا ہوں۔۔پٹی کرو پلیز۔۔۔" چند لمحوں بعد زبیر نے رو دینے والے لہجے میں کہا۔

"کس کے لئے وہ کارڈ لئے تھے؟" جبران نے سرد مہری سے پوچھا۔

"مم۔۔مم۔۔وہ۔۔وہ ۔۔مجھے مار ڈالے گا۔۔"زیبر نے سہمے ہوئے انداز میں کہا۔

"اب بھی کون سا تم بچنے والے ہو۔" جبران نے منہ بناتے ہوئے کہا اور دوبارہ آپ میں باتیں کرنے میں لگ گئے۔ جبران اور کبیر بھی اندر سے پریشان ہو رہے تھے کہ اگر بروقت زبیر نےکچھ نہ بتایاتو وہ ناکام ہو جائیں گےلیکن انتظار کے سوا چارہ بھی کوئی نہیں تھا۔

"سس۔۔سس۔۔سائیکو کے آدمیوں کو۔۔" زبیر نے کہا تو عجیب و غریب نام سُن کر کبیر اور جبران چونک گئے۔

"وہ کون ہے؟" ---جبران نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا۔

"میں نہیں جانتا۔۔وہ خود کو یہی نام دیتا ہے۔۔بالکل سر پھرا اور سنکی سا ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے پاگل ہے۔اس کے آدمیوں کو دیئے گئے تھے وہ کارڈز۔"زیبر نے کہا۔

"اس کی پٹی کرو۔فرسٹ ایڈ باکس ہے یہاں؟" جبران نے پہلے کبیر سے اور پھر زبیر سے کہا تو زبیر نے ایک طرف موجود الماری کی طرف اشارہ کیا۔اس کا کافی خون بہہ چکا تھا اور کبیر نے اس کی نس نہیں کاٹی تھی ویسے ہی کٹ لگایا تھا ورنہ پٹی سے اس کی جان نہ بچا پاتے۔

"سائیکو اور اس کے آدمیوں کے بارے میں بتاؤ۔" جبران نے کہا۔

"سائیکو کے بارے میں اتنا ہی علم ہے مجھے۔اس کے آدمی ممتاز ہوٹل کے فلیٹ نمبر تیرہ میں رہائش پذیر ہیں۔۔دو لوگ ہیں۔۔جارج اور رشید۔۔" زیبر نے جواب دیا۔

"سائیکو غیر ملکی ہے؟" ---جبران نے پوچھا۔کبیر کو فرسٹ ایڈ باکس مل گیا تھا، وہ اب بڑی مہارت سے زبیر کے زخم پر بینڈج لگا رہا تھا ۔

"مجھے نہیں معلوم۔ زبان سے تو وہ مقامی ہی محسوس ہوتا ہے۔" زبیر نے ڈوبتے ہوئے لہجے میں کہا۔

"ان سب کے حلئے بتاؤ۔" جبران نے کہا تو زبیر نے کسی محکوم کی طرح جلدی جلدی سب کے حلئے بتائے۔

"تمہارا ان کا ساتھ کوئی کوڈ وغیرہ طہ ہو اہے؟" جبران نے پوچھا تو کبیر نے سر ہلایا جیسے جبران نے بالکل درست سوال پوچھ کر ذہانت کا ثبوت دیا ہو۔

"نہیں۔۔کوئی کوڈ نہیں ۔۔وہ مجھے زبیر کے نام سے ہی جانتے ہیں۔" زیبر نے کہا، اس کے جسم کو ہلکے ہلکے جھٹکے لگنا شروع ہو گئے تھے۔

"سائیکو کا مشن کیا ہے؟"--- جبران نے پوچھا تو کبیر نے اسے تعریفی نظروں سے دیکھا۔

"وہ کسی کو نہیں بتاتا۔بس اتنا ہی میں نے سنا ہے کہ وہ ملک کو اندرونی

طور پر مستقل بے چینی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔۔" زبیر نے جواب دیا۔

"اسے کس نے ہائر کیا ہے؟' جبران نے پوچھا۔

"اسے---"زیبر اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ اس کی گردن ڈھلک گئی۔کبیر نے آگے بڑھ کر اس کی نبض چیک کی اور جبران کی طرف دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔

"غلطی ہو گئی، میں نے اپنی طرف سے تو محض کٹ لگایا تھا، سچ میں نس کاٹ دی۔"۔ کبیر نے ہونٹ کاٹے ہوئے کہا۔

" اب پھر------" جبران نے کندھے اچکائے۔

"بینڈج اتار دو۔باکس واپس الماری میں سیٹ کر دو۔انگلیوں کے نشان بھی ختم کرنے ہیں۔جب تک ہو سکے اس کی موت کو معمہ ہی رہنا چاہئے۔"کبیر نے کہا تو جبران تیزی سے کام میں لگ گیا۔ کبیر نے اپنا  ڈبل کوٹ الٹا کر کے پہنا، جیب سے ماسک نکال کر پہلے والے ماسک کے اوپر ہی ایڈ جسٹ کیا۔۔جبران اپنے کام سے فارغ ہو کرکبیر کی پیروی کی اور وہ دونوں وہاں سے باہر نکل گئے۔

 

 ❤

 

فاکس سر پرہاتھ رکھے تیزی سے اس شخص کے آگے چل رہا تھا، جبکہ گن بردار جو اس کے پیچھے گن تانے چل رہا تھا وہ فاکس کی سپیڈ کی وجہ سے حیران ہونے کی بجائے جھلایا ہوا تھا۔

"تمہیں مجھ سے زیادہ جلدی ہے؟" اس نے جھلائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

"جب یہی کام کرنا ہے تو دیر مناسب نہیں۔" فاکس نے مطمن لہجے میں کہا ، وہ عمارت کے مرکزی دروازے پرپہنچ چکے تھے۔فاکس جہاں کہیں اس طرح گھستا، اس کا انداز ایک جیسا ہی ہوتا تھا جو سامنے والے کو بوکھلانے یا جھلانے پر مجبور کر دیتا تھا۔

"کس کمرے میں جانا ہے؟" فاکس نے ایسے پوچھا جیسے وہ ان کا مہمان ہو۔

" جناب۔۔بس رک جائیں۔۔آپ کا مطلوبہ کمرہ دائیں ہاتھ والا ہے۔" اس شخص نے طنزیہ لہجے میں کہا اور فاکس اس کے بتائے ہوئے کمرے میں داخل ہو گیا۔کمرے درمیانے سائز کا تھا۔ یہ ڈرائنگ روم نما کمرہ تھا، کمرے میں بڑی ترتیب صوفے رکھے ہوئے تھے ، ایک سخت اور سپاٹ چہرے والا شخص وہاں براجمان تھا۔وہ سرد نظروں سے فاکس کو گھور رہا تھا۔فاکس چلتے ہوئے اس کے بالکل سامنے کھڑا ہو گیا جب کہ گن برداز اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا تھا۔

"کون ہو تم؟"--- اس شخص نے پوچھا۔

"مرغی کا مالک۔۔" فاکس نے کہا تو اس شخص نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

"کیا مطلب ہے تمہارا؟"--- اس نے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا تو جواب میں اس کے ساتھی نے ساری کہانی سمجھائی۔

"سیدھی طرح بتاؤ تم کون ہوورنہ یہاں سے زندہ واپس نہیں جا سکو گے۔"اس نے غصیلے  لہجے میں کہا۔

"یہ عجیب غنڈہ گردی ہے۔۔میری مرغی ۔۔اس کے انڈے اور اب میں۔۔سب کچھ تم ہی ہتھیا لو گے تو زمانہ آگے کیسے بڑھے گا۔" فاکس نے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

" کس پاگل کو اٹھا لائے ہو تم مارکس۔۔ گولی مار دو اسے۔۔" اس شخص نے آپے سے باہرہوتے ہوئے کہا ، مارکس نے گن ابھی اوپر اٹھائی ہی تھی کے فاکس کی بیک کک اس شخص کے پیٹ میں لگی ۔وہ اوغ کی آواز نکالتے ہوئے آگے جھکا۔فاکس نے  وہیں کھڑے کھڑے ہاتھ پیچھے کر کے گن کو نالی سے پکڑ کر سر کے اوپر سے گھماتے ہوئے اس کا بَٹ سامنے صوفے پر موجود شخص کی سر پر دے مارا۔تڑاخ کی آواز کے ساتھ ہی اس شخص کی چیخ بلند ہوئی اور وہ صوفے پر ہی ڈھلک گیا۔

فاکس ایڑیوں کے بل گھوما اور وہی گن گھماکر اپنے پیچھے موجود شخص--جو اس کی لات کھا کر ابھی سیدھا ہوا ہی تھا، کی گردن پر دے ماری اور وہ اچھل کر پہلو کے بل زمین پرآرہا۔ فاکس کی لات گھوم کر اس کی کنپٹی پرلگی---وہ چیخ کر ساکت ہو گیا۔فاکس نے گن کی طرف دیکھا تو یوں اچھلا جیسے کسی بچھو نے کاٹ لیا ہو ، اس نے گن کو یوں تیزی سے پھینکا جیسے کوئی ناپاک چیز پکڑی ہوئی ہو۔اس نے دونوں کی نبض چیک کی  اور پردے اتار کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھے اور خود عمارت کی تلاشی میں مصروف ہو گیا۔ اس نے ہر چیز کی تفصیلی تلاشی لی مگر کسی قسم کا کوئی کلیو نہ ملا۔ یہ رہائش گاہ شاید عارضی طور پر لی گئی تھی جس وجہ سے کسی قسم کا کوئی ریکارڈ میسر نہیں تھا۔فاکس تیز ی سے واپس ڈرائنگ روم پہنچا اور وہاں موجود بے ہوش افراد میں سے صوفے پربراجمان شخص کو سیدھا کر کے تھپڑ مارنے شروع کئے۔ فاکس کو ان دونوں میں وہی لیڈر محسوس ہوا تھا۔چند لمحوں میں اس کے جسم میں حرکت پید ا ہوئی تو فاکس پیچھے ہٹ کر دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا۔اس شخص نے کسمساتے ہوئے آنکھیں کھولیں۔کچھ دیر تو اسے کچھ سمجھ ہی نہ آئی پھر وہ فاکس کو سامنے بیٹھا دیکھ کر چونک گیا، جیسے اسے دھچکا لگا ہو۔

"تم نے اتنی تیزی سے یہ سب کیسے کر لیا؟" اس شخص نے حیرت بھرے انداز میں پوچھا۔ اس کا اعتماد اور بے خوفی اس بات کو مظہر تھیکہ وہ تربیت یافتہ شخص ہے۔

"جس کی مرغی گم ہو گئی ہو۔اس کے دل پر کیا گزرتی ہے۔یہ تم کیا جانو۔" فاکس نے کہا تو اس شخص کے چہرے پر غصے کی لہر دوڑ گئی مگر وہ کچھ بولنے کی حالت میں نہیں تھا سو چپ کر گیا۔

"سائیکو کہاں ہے؟" فاکس نے پوچھا تو اس شخص کی آنکھوں میں چمک ابھری لیکن وہ چمک فوراََ معدوم ہو گئی۔

"مجھے تو تم ہی سائیکو لگ رہے ہو۔" اس شخص نے کہا تو فاکس بے اختیار ہنس پڑا۔اس نے فاکس کی پچھلی کارکردگی کے حساب سے بہت خوبصورت جواب دیا۔

"تمہارا جواب پسند آیالیکن یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔" فاکس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"میں نہیں جانتا تم کیا پوچھ رہے ہو۔۔" اس شخص نے جواب دیا۔

"تم نے شارک سے کچھ سامان لیا تھا، وہ کس لئے تھا؟" فاکس نے کہا تو وہ شخص چونکا۔

"کون شارک۔۔؟" وہ بات بات پر چونک بھی رہا تھا مگر بہت اچھے طریقے سے اسے چھپا بھی رہا تھا، مگر فاکس ہر بات نوٹ کر رہا تھا۔

"اوکے۔۔" فاکس نے کہا اور اٹھ کر گن پکڑی۔ اس کا رخ بے ہوش شخص کی طرف کر کے ٹریگر دبا دیا، ٹھائیں کی آواز کے ساتھ اس کا جسم تڑپا اور پھر ٹھنڈا ہو گیا۔ گولی اس کے سینے میں گھس گئی تھی۔ فاکس کا چہرہ اب ایک سفاک قاتل کے چہرے جیسا نظر آ رہا تھا۔

"سائیکو کو ن ہے؟" اس نے اس شخص پر گن تانتے ہوئے پوچھا۔

"میں نہیں جانتا۔۔" اس شخص نے مضبوط لہجے میں کہا، فاکس نے گن کا دھانہ اوپر اٹھایا تو اس شخص نے آنکھیں بند کر لیں۔مگر گولی کی آواز کے ساتھ اس کی دلخراش چیخ بلند ہوئی۔گولی اس کے دائیں کان کو لئے ہوئے پچھلی دیوار سے جا ٹکرائی۔

"کچھ یا د آیا؟"--- فاکس نے کہا تو اس شخص نے زہریلے لہجے میں اس کی طرف دیکھا مگر زبان بند ہی رکھی۔ فاکس نے گن کا زاویہ بدلا اور ٹریگر دبا دیا۔ اس بار گولی کا نشانہ اس شخص کی ران تھی۔ اب وہ مسلسل چیخنا شروع ہو گیا تھا۔ فاکس نے گن کا دھانہ اس کی دوسری ران پر رکھ         کر ٹریگر دبا دیا اور اس شخص کی چیخوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔

"تمہاری ٹانگیں ۔۔تمہاری ضد کی وجہ سے بے کار ہو جائیں گی۔" فاکس نے ران کے اوپر دوسری جگہ پرگن کا دھانہ رکھتے ہوئے کہا۔

"تت۔۔تت۔۔تت۔۔جانور ہو۔" اس نے چیختے ہوئے کہا تو فاکس کی انگلی ٹریگر کی طرف بڑھی۔

"رکو۔۔بتاتا ہوں۔۔رکو۔۔" اس نے چیخ کر کہا تو فاکس کی انگلی ٹریگر سے ہٹ گئی۔

"جلدی شروع ہو جاؤ۔۔سائیکو کون ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے اور تم نے بم کیسے سیکرٹیریٹ میں پہنچایا؟"فاکس نے سارے سوالات ایک ہی بار میں پوچھ لیئے۔

"سائیکو ہمارا باس ہےمگر ہم اسے کبھی اصلی شکل میں نہیں دیکھی۔ وہ ایک پاگل سنکی ہے۔ہمیں اچھی تنخواہیں دیتا ہے تو ہم اس کا پاگل پن کو برداشت کرلیتے ہیں۔وہ کبھی بھی مشن کے بارے میں ہمیں نہیں بتایا۔بس وہ جو ہدایات دے ، ہم وہ کام کرتے ہیں۔ ہم نے شارک سے بم لے کر سائیکو کے کہنے پرایک عمارت میں پہنچا دیا تھا، وہ عمارت خالی محسوس ہوتی تھی۔"اس شخص نے کہا۔

"ان سب باتوں میں میر ے کام کی کوئی بات بھی نہیں۔ایسے تو تمہیں مرنا پڑے گا۔۔" فاکس نے تلخ لہجے میں کہا۔

"مم۔۔مم۔۔میں سچ کہہ رہا ہوں۔میں اتنا ہی جانتا ہوں۔" اس شخص نے کہا۔

"سوری۔۔مجھے میرے کام کی کوئی بات بتاؤ۔۔ورنہ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑ سکتامجھے سائیکو یا پھر اس کے مشن کے بارے میں کچھ بتاؤ۔"فاکس نے کہا۔

"جب میں کچھ جانتا ہی نہیں تو تمہیں کیسے بتاؤں؟" اس نے بھی تلخ لہجے میں کہا اسی وقت فاکس نے ٹریگر دبا دیا اور اس شخص کے منہ سے چیخ نکلی۔

"سس۔۔سس۔سس۔۔سائیکو تمہارے ملک کو تباہ کر دے گا۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے اس ملک کو تباہ کر دیتا ہے۔" اس شخص نے چیختےہوئے کہا۔

"تم لوگ کس ملک سے آئے ہو؟" فاکس نے پوچھا تو اس شخص نے ملک کا نام بتایا۔

"تم لوگ کس دن اور کتنے بجے آئے تھے؟" فاکس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا جس پر اس شخص نے وقت اور دن بتایا۔

"یہاں آنے کے بعد سائیکو تم سے کس طرح رابطہ کرتا ہے؟" فاکس نے پوچھا۔

"ٹرانسمیٹر پر۔۔" اس شخص نے کہا تو فاکس نےاس سے فرئکونسی بھی پوچھ لی اور بعد میں  ٹرانسمیٹر بھی ایک خفیہ جگہ سے برآمد کر لیا۔

"بہت شکریہ۔۔اب بتاؤ۔۔میری مرغی او راسے کے انڈے کدھر ہیں؟" فاکس نے کہا تو اس شخص کے منہ سے مغلطات کا طوفان امڈ آیا۔

"اوہ۔۔مرغی نے تو گندے انڈے دینے شروع کر دیئے۔ " فاکس نے کہا اور گن کارخ اس شخص کے سینے کی طرف کر کے ٹریگر دبا دیا۔

اس کارروائی کے بعد وہ اس عمارت کی عقبی طرف سے ہی نکل گیا۔

وہاں سے اپنی کار میں سوار ہوا اور  اپنی رہائش گاہ کی طرف چل دیا۔اسے ابھی تک کچھ بھی قابلِ قدر بات معلوم نہیں ہوئی تھی، اس شخص سے ملنے والی معلومات کے حساب سے اب وہ ائیر پورٹ پر چیکنگ کا ارادہ رکھتا تھا۔ جس دن اور وقت پر وہ لوگ ملک میں داخل ہوئے تھے ، اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے وہ کچھ پوچھ گچھ کر نا چاہ رہا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس سائیکو کی فریکوئنسی بھی تھی، وہ اس فریکوئنسی کی مدد سے بھی سائیکو کو ٹریس کرنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔

فاکس جتنی رفتار سے یہ ٹاسک پورا کرنا چاہتا تھا اتنا ہی یہ کام طوالت پکڑ رہا تھا۔وہ جس کلیو تک پہنچتا تھا وہاں سے ایک نیا باب شروع ہو جاتا تھا۔ سائیکو کے بارے میں فاکس الجھتا جا رہا تھا، اب تک کی اس کی تفتیش کے بعد اسے اتنا شک ہونا شروع ہو گیا تھا کہ سائیکو ذاتی سطح پرکام کرنے والا شخص ہے اور اس کی شخصیت کے کئی رنگ ہیں۔ شاید وہ تھا بھی غیر ملکی ــــــــــــ جو ابھی تک ہاتھ نہیں آ رہا تھا نہ ہی اس کے بارے میں کچھ پتہ چل رہا تھا۔

 

 ❤

 

یہ سائیکو کے خفیہ اڈے کا کمرہ تھا  جس میں سٹریچر نما بیڈ پروہ وجیہہ نوجوان ساکت پڑا ہوا تھا۔رات کے دو بجے تھے اور اس کمرے کی نگرانی کرنے والا سونے جا چکا تھا۔ جاتے ہوئے اس نے کمرے کی اندرونی روشنی گل کر دی تھی مگر راہداری کی تمام بتیاں روشن تھی ۔ اندھے شیشے کی "الٹی طبیعت" کے باعث کمرے کی کھڑکی میں سے اب باہر سے تو کمرے کا اندرونی منظر نظر نہیں آرہا تھا--- مگر اندر سے بیرونی منظر صاف نظر آرہا تھا ــــــ  کیونکہ اس شیشے سے اس طرف کا منظر ہی دکھائی دیتا تھا جس طرف روشنی ہوتی تھی۔

نوجوان سارے ماحول سے بے خبر پڑا ہوا تھا۔

"کیا تم میری آواز سُن سکتے ہو؟"--- کمرے میں دھیمی مگر بارعب آواز سنائی دی مگر اس آواز کے جواب میں  کوئی آواز بھی نہ ابھری۔

"کیا تم میری آواز سُن رہے ہو؟ جواب دو مجھے۔"--- وہی آواز ابھری ، اس بار آواز میں رُعب کے ساتھ ساتھ سختی بھی تھی۔

"ہاں میں تمہاری آواز سن رہا ہوں۔" کمرے میں دوسری آواز ابھری جو قدرے نرم اور خوابیدہ شخص کی آواز محسوس ہو رہی تھی۔

"سپیشل ہدایات کو لاگو کرو۔" پہلی آواز نے کہا مگر کوئی جواب نہ ملا۔

"سپیشل ہدایات کو لاگو کرو۔" پہلی آواز نے غراتے ہوئے کہا۔

"سپیشل ہدایات کے لئے کوڈ کیا ہے؟"--- دوسری آواز نرمی سے گویا ہوئی۔

"بلیک فینکس---ڈبل اے---فورزیروز۔---لاسٹ ٹرائی۔" پہلی آواز نے رک رک کر کوڈ بتائے---پہلی آواز نے  ایک ایسے تصوراتی پرندے کا نام لیا تھا جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ  ایک وقت میں پوری دنیا میں اس قسم کے صرف ایک ہی پرندے کا وجو د ہوتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے کہ وہ پھر سے پیدا ہو تو وہ خود کو جلا ڈالتا ہے---اسی پرندے کی  بچی ہوئی راکھ سے وہ پرندہ دوبارہ جنم لیتا ہے۔

"کوڈ درست نہیں۔۔" پہلی آواز نے چند لمحوں کے بعد جواب دیا۔

"بلیک فینکس۔۔" پہلی آواز نے جلدی سے کہا۔

"کوڈ درست ہے۔کیا حکم ہے؟" پہلی آواز نے پوچھا۔

"ایسی تمام معلومات جو تمہارے ذہن میں سے زبردستی مٹائی گئی ہیں، انہیں  واپس لاؤ۔" پہلی آواز نے کہا۔

 اس کا انداز ایسا تھا جیسے وہ جانتا ہو کہ معلومات مٹائی بھی گئی ہیں اور کہیں ذہن کہ کسی کونے میں چھپا کر بچائی بھی گئیں ہیں۔

" ہدایت پر عمل جاری ہے۔" پہلی آواز نے کسی ٹیلی فون آپریٹر کی طرح جوا ب دیا اور خاموشی چھا گئی۔ پانچ منٹ کی خاموشی میں ہی کٹ گئے۔

"معلومات کو لاشعور کے حفاظتی حصے سے واپس لے لیا گیا ہے۔"

دوسری---نرم---غنودگی بھری آواز ابھری۔

"تمہارے ذہن سے جو معلومات نکالی گئیں ہیں اور ان کے بارے میں بھول جانے کا کہا گیا ہے، وہ ری کال کرو۔" پہلی آواز نے اگلی ہدایت دی اور پہلی آواز اس پر عمل کرنے میں لگ گئی۔

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد دوسری آواز نے اگلی ہدایت مانگی۔

"تمہیں پچھلے ٹرانس میں جو آخری ہدایات دی گئیں ہیں وہ ری کال کرو۔" اگلی ہدایت ملی اور دوسری آواز نے اس پر عمل ہوجانے کی تصدیق کی۔

"جب تمہیں ٹرانس میں لیا جا رہا تھا ، اس وقت آس پاس کی انسانی اور مشین آوازوں کو ری کال کر کے لاشعور میں ٹرانسفر کرو۔" پھر ہدایت ملی اور دوسری آواز نے اس پر عمل کیا۔

"جب تم ہوش میں آؤ تو تمہارے ذہن میں سب سے پہلا لفظ ---بلیک فینکس آئے گااور تم اپنے نارمل ذہن کے ساتھ بیدار ہو گے۔" پہلی آواز نے کہا۔

"میرے ہوش میں آتے ہی میرے ذہین میں  پہلا لفظ بلیک فینکس ابھرے گا--میں اپنے نارمل ذہن کے ساتھ بیدار ہوں گا۔"دوسری آواز نے اس ہدایت کو دہرایا۔

"ہوش میں آتے ہی تم بے چین نہیں ہو گے۔ٹھیک پانچ منٹ بعد تم ہوش میں آ جاؤ گے۔" اگلی ہدایت دی گئی جسے دوسری آواز نے دہرایا۔

"سپیشل ٹرانس موڈ کو بند کیا جا رہا ہے--- گڈ بائی بلیک فینکس---" پہلی آواز نے ٹرانس کا عمل ختم کرنے کے لئے دوبارہ کوڈ بولا، کوڈ کی وجہ سے دوسری آواز ---پہلی آواز کے ٹرانس سے باہر نکل گئی ۔ اب کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔

وہ نوجوان لارڈتھا۔۔چیف آف گرین سروس ---دونوں آوازیں بہت ہی دھیمی تھیں جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو مگر دونوں آوازوں کے لئے ہونٹ صرف لارڈ کے ہل  رہے تھے۔ بے ہوشی کے دوران دو مختلف آوازیں اور وہ بھی ہپناٹزم کے ماہر کے سے انداز میں ---اپنے آپ میں بہت ہی عجیب نوعیت کا منظر تھا۔ لارڈ کا بے ہوش ذہن خود ہی--- خود کو ہپناٹائز کر کے جیسے ری سٹارٹ کر رہا تھا۔ان ہدایات کو سُن کر لگتا تھا کہ جیسے اس  نے قبلِ از وقت ہی اپنے دماغ کو کئی طرح کے تالوں میں بند کر رکھا تھا جن کو کھولنے کے لئے پیچیدہ کوڈز کی ضرورت تھی۔مخصوص حالا ت کے تحت اس کا دماغ خود بخود متحرک ہو چکا تھا اور اس ٹرانس میں---ٹرانس میں لانے والا بھی وہی دماغ تھا جسے ٹرانس میں لایا جا رہا تھا۔ اپنے ذہن کی اس طرح سے حفاظت بہت ہی انوکھی بات---انوکھی چال تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ لارڈ دماغی علوم میں دسترس رکھتا ہے ---اور موجودہ خودکار انداز میں ٹرانس والا  کیس---اس کی اس فیلڈ میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

 کمرے کی کھڑکی سے باہر دیوار پر موجود ڈیجیٹل وال کلاک پرسیکنڈ تیزی سے گم ہوتے جا رہے تھے۔ پہلی آواز کی طرف سے پانچ منٹ کا وقت پورا ہونے میں دومنٹ کا وقت باقی رہ گئے تھے۔یکدم کمرے کی اندرونی لائٹ آن ہوئی اور کمرہ مکمل روشن ہو گیا۔ کھڑکی سے کمرے کا چوکیدار نظر آیا ۔جسے سائیکو نے وہاں نگرانی کے لئے رکھا ہوا تھا۔ چند لمحے وہ سامنے پڑے نوجوان کو دیکھتا رہا، کمرے کا جائزہ لیا اور پھر کندھے اچکا کر واپس مڑ گیا۔ جاتے ہوئے اس نے کمرے کی لائٹ پھر سے بند کر دی تھی۔وال کلاک کے حساب سے پانچ منٹ پورے ہو چکے تھے۔

اس کے ذہن میں جیسے روشنی کا نقطہ چمکتا ہے ، اس طرح روشنی ہونا شروع ہوئی اور یہ روشنی پھیلنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے کسمساتے ہوئے آنکھیں کھولیں۔بلیک فینکس---اس کے ذہن میں لفظ ابھرا اور وہ چونک گیا--- چند لمحے تو وہ خالی خالی آنکھوں سے چھت کو گھورتا رہا۔پہلے تو اسے کچھ سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ کون ہے ۔ کہاں ہے اس کے باوجود وہ بے چین ہو کر یا غیر ارادی طور پر اٹھا نہیں ، ایسے لگ رہا تھا جیسے اس حالت میں بھی  دماغ اس کے قابو میں ہےپھر آہستہ آہستہ اسے سب یاد آنے لگا۔ وہ آرام سے لیٹے  ہوئےسب یادوں میں سے گزر رہا تھا۔اسے جس یاد نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ آخری واقعہ تھا جب  وہ روشن پیلس پہنچا اور اس کی کرسی پر کوئی اور شخص بیٹھا تھا ، جس نے اس پر ریز ڈال کر اس کے جسم کو سُن کر دیا تھا ۔پھر وہ شخص اسے کار کی ڈگی میں ڈال کر ایک نئی جگہ لے گیا جہاں تھوڑی ہی دیر بعد اسے بے ہوش کر دیا گیا۔یہ سب یاد آنے کے باوجود وہ آرام سے لیٹا رہا، اصل میں وہ آس پاس کے ماحول کی سُن گن لینے کی کوشش میں تھا لیکن جب کافی دیر تک کوئی آواز نہ سنائی دی تو اس نے سر گھمایا۔وہ ایک سٹریچر  نما بیڈپر موجود تھا  جس کے ساتھ سٹینڈ پر گلوکوز والی بوتل لٹکی ہوئی تھی۔کمرے کا منظر ہسپتا ل کے کمرے جیسا ہی تھا۔ اس نے ہر چیزکا بغور جائزہ لیا۔سامنے کھڑکی تھی جس میں شیشہ لگا ہوا تھا اور دیوار پر موجود وال کلاک پر اس کی نظر پڑی ، اڑھائی بج چکے تھے۔

اس کا دماغ تیزی سے چل رہا تھا۔ وہ اس وقت سائیکو کے ٹرانس سے نکل چکا تھا لیکن سائیکو نے اسے ٹرانس میں رکھنے کے لئے ہدایات دی تھیں وہ اسے یا دتھیں۔ سائیکو نے اس کے دماغ سے جو معلومات نکالی تھیں وہ بھی اسے یاد تھیں ۔اپنے دماغ سےاُن معلومات کے نکلنے کے وجہ سے اس کے جبڑے بھنچے ہوئے تھے۔ سائیکو بہت اہم معلومات اس کے ذہن سے نکال چکا تھا جن کی مدد سے وہ ملک کو بہت نقصان پہنچا سکتا تھا۔ جب اس کے ذہن میں بلیک فینکس کا لفظ ابھرا تو وہ فوری طور پرجان گیا تھا کہ اس کے ذہن کو ٹرانس میں لایا گیاتھا۔ اس

نے لارڈ کا عہدہ سنبھالتے وقت سے ہی اپنے آپ ذہن کو ہپناٹائز کر رکھا تھا اور مناسب وقفوں میں اس ٹرانس کو تازہ کرتا رہتا تھا۔

 اس نے اپنے ذہن کو ٹرانس کے ذریعے دو قسم کی ہدایات کا پابند کر رکھا تھا---جیسے ہی وہ مخصوص قسم کی سچوئیشن میں پھنس کر لمبے وقت کے لئے بے ہوش ہوتا اور بے ہوشی کے دوران اس کے ذہن کے ساتھ چھیڑ خانی کی جاتی تو ایک خاص وقت یعنی رات کے سوا دوبجے---اس کا ذہن خود کارانداز میں اپنے آپ کو حملہ آور کے ٹرانس سے نکا ل لیتا  ۔ اس ٹرانس کو بہت عرصے سے قائم رکھے ہوئے تھا اور آج یہ احتیاط اس کے کام آ گئی تھی۔سوا دو بجے کاوقت رکھنے کے پیچھے یہی وجہ تھی کہ عام طور پر اس وقت کوئی خاص نگرانی نہیں کی جاتی اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس طرح سے کوئی شخص اپنے ذہن کو کسی کے چنگل سے نکال سکتا ہے۔

 وہ ابھی تک سائیکو کا نام یا اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا لیکن اس کے لاشعور میں اپنے اغواء کنندہ کا نام سائیکو  ابھرا جیسے اس نے یہ نام کہیں سنا ہو۔جب اسے سب کچھ یاد تھا تو وہ یہ بھی جان چکا تھا کہ سائیکو کے ارادے کیا تھے۔ سپارک کا کام اسے روکنا تھا اور روکنے کے لئے پہلے یہاں سے نکلنا ضروری تھا مگر فرار کا کوئی رستہ نظر نہیں آرہا تھا۔یہاں سے نکلنے کے بعد بھی اسے بہت احتیاط سے کام لینا تھا۔سوچتے سوچتے اس کے ذہن میں ایک پلان آیا اور چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔اس نے اپنے پلان کا مکمل تجزیہ کیا اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ چند لمحوں میں وہ چین کی نیند سو گیا۔

اس کی دوبارہ آنکھ کھلی تو سامنے والے شیشے میں اب کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اپنے پلان پر عمل کر نے کا وقت آ چکا تھا۔ وہ جھٹکے سے اٹھا ، اس کے چہرے پر شدید پریشانی کے آثار تھے۔ اس نے کمرے کو ایسے دیکھا جیسے وہ بہت ہی گھبراہٹ میں مبتلا ہو۔سٹینڈ پرموجود گلوکوز کی بوتل ختم ہو چکی تھی، اس نے اپنے ہاتھ پر موجود سوئی بے دردی سے کھینچی اور کمبل سائیڈ پرکر کے کھڑا ہوا، لیکن اگلے لمحے وہ چکرایا اور گھومتا ہوا دھڑام کی آواز کے ساتھ زمین پر آرہا، اس نے دوبارہ اٹھننے کی کوشش کی ،اس بار وہ زوردار دھماکے سے دیوار سے ٹکرایا، اس کا انداز ایسا تھا جیسے کسی جنگلی پرندے کو پہلی بار پنچرے میں بند کیا گیا ہو۔وہ بہت ہی کمزور محسوس ہو رہاتھا جسے اپنے حواس اور جسم پر قابونہیں تھا ۔

کمرے سے باہر کمپیوٹر کے سامنے موجود شخص اسے حیرت بھرے انداز میں دیکھ رہا تھا ، جب سپارک نے بار بار اٹھنے کی کوشش کی اور ہر بار چکر ا کر گرا تو اس شخص نے بوکھلائے ہوئے انداز میں ساتھ پڑے فون کا ریسیور اٹھا کر نمبر ملایا۔

"یس۔۔" دوسری طرف سے غراہٹ بھری آواز سنائی دی جسے سن کر اس شخص کا گلا خشک ہو گیا۔

"علیم بول رہا ہوں باس۔۔"اس نے مودبانہ لہجے میں کہا۔

"کیا بات ہے؟" دوسری طرف سے اس بار سائیکو کی آواز آئی۔ اس کی آواز بدل گئی تھی۔

"باس ۔۔قید ی ہوش میں ہے ، وہ بیڈ سے اتر کر بار بار کھڑے ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور بار بار زمین پر گر رہا ہے۔اس طرح وہ اپنے آپ کو زخمی کر لے گا۔" علیم نے سامنے کمرے میں دیکھتے ہوئے تیزی سے کہا۔

"ہاہاہاہاہا۔۔حقیر کیڑا۔۔جا کر سنبھالو اسے۔۔" سائیکو نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

"مگر باس۔آپ کہہ رہے تھے کہ یہ بہت خطرناک شخص ہے۔" علیم

نے جھجکتے ہوئے کہا۔

"خطرناک شخص تھا۔۔اب میرا غلام ہے۔۔ہاہاہاہا۔۔جہاں مرضی ہو لے جاؤ۔۔" دوسری طرف سے جواب آیا اور ریسیور رکھ دیا گیا۔

سپارک بار بار گرنے سے نڈھال ہو چکا تھا مگر اب پھر وہ اٹھنے کے فراق میں تھا۔ اسی وقت دروازہ دھماکے سے کھلا اور  علیم اندر داخل  ہوا۔

"کیوں اپنے جان کے دشمن بنے ہوئے ہو؟"---آنے والے نے نرم لہجے میں اسے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔

"میں کہاں ہوں؟"--- اس نے پوچھا۔

"تم اپنے ہی گھر میں ہو۔میں تمہاری دیکھ بھال کرتا ہوں، میرا نام علیم

ہے۔" علیم نے جواب دیا۔

"مجھے کچھ یاد کیوں نہیں آ رہا؟"--- اس نے پریشان لہجے میں پوچھا۔

"تمہار ا ایکسیڈنٹ ہوا تھااور تمہارے سر پر چوٹ لگی تھی۔ تم دس دن  سے بے ہوش رہے ہو۔"

"میرا دل یہاں گھبرا رہا ہے۔کیا میں باہر جا سکتا ہوں؟"---اس نے

معصومیت بھرے انداز میں پوچھا۔

"ابھی تو تم چل بھی نہیں سکتے ۔۔باہر کیسے جاؤ گے؟"

"تم میرے ساتھ چلو۔" اس نے علیم کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تو علیم نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ علیم کا ہاتھ تھامے وہ زمین سے اٹھا ۔اور علیم کے سہارے چلتا ہوا اس کمرے سے باہر نکلا۔ اس کی حالت بچوں جیسی تھی۔

"یہ کون  سی جگہ ہے؟"

"یہ روز ٹاؤن کا علاقہ ہے، اسی میں تمہارا گھر ہے۔۔"

"میرے گھر میں اور کون کو ن ہے؟"

"ہم دونوں کے علاوہ دو لوگ اور ہیں۔" علیم نے جواب دیا۔اب وہ دونوں تہہ خانے کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے، سپارک کا سانس پھول             چکا تھا۔

"تم بہت ہی بہادر اور ذہین شخص ہو، میں تم سے بہت متاثر ہوں مگر فی  الوقت تم جس حالت میں ہو مجھے تم پرترس آتا ہے۔" علیم نے تہہ خانے سے نکل کر گراؤنڈ فلور کے ایک کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔

"دوسرے دو لوگ نظر کیوں نہیں آرہے؟" سپارک نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔

"کیوں کہ ایک گیٹ پر ہے اور ایک چھت پر۔تم اس بارے میں بار بار کیوں پوچھ رہے ہو؟" علیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"کیوں کہ میرے پاس وقت بہت کم ہے اور کام بہت زیادہ---"سپارک نے اس سے دور ہٹتے ہوئے غراکر کہا تو علیم کے جسم کو جھٹکا لگا---یہی لہجہ اس نے ابھی ابھی فون پر سنا تھا جو سپارک کے منہ سے نکلا تھا ــــــ وہ تھا لارڈ کا لہجہ۔

"تت۔۔تت۔۔تم کیا کہہ رہے ہو؟" ---علیم نے ہکلاتے ہوئے کہا،

وہ پہلے ہی اس نوجوان سے مرعوب تھا، اب تو اس کے ہوش اڑ گئے تھے۔ سائیکو کے مطابق تو وہ ایک گیدڑ بن چکا تھا لیکن وہ علیم کے سامنے ایک زخمی شیر کی طرح غرا رہا تھا۔

"سائیکو کہاں ہے؟"---  سپارک نے کرخت لہجے میں پوچھا تو علیم چکر ا کر زمین پرگر پڑا، اس کا جسم ساکت ہو چکا تھا، سپارک نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کندھے اچکاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا، اس نے کمرے کو باہر سے لاک کیا اور چھت کی طرف چل پڑا ۔ وہ راہداری سے گزر رہا تھا، ایک کھلے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے جیسے ہی اس کی نظر کمرے میں موجود ٹی وہ پر پڑی---زمین نے جیسے اس کے پاؤں پکڑ لئے ہوں---وہ مجسمے کی طرح ساکت ،ٹی وی پر نظر آنے والی تصویروں کا گھور رہا تھا۔

 


پانچویں قسط کے لئے

کلک کیجئے

پی ڈی ایف میں مکمل ناول حاصل کرنے کے لئے 250 روپے ایزی پیسہ کر کے واٹس ایپ پر رابطہ کیجئے۔

03435941383 (واٹس ایپ+ ایزی پیسہ)

(تبصرہ/رائے کے اظہار کے لئے  لنکس)

www.facebook.com/groups/ibnetalib

 

ناول کے تمام کردار، مقامات، واقعات فرضی ہیں اور مصنف کی اپنی تخلیق ہیں۔ جن میں کسی بھی قسم کی کلی یا جزوی مطابقت محض اتفاقیہ امر ہو گا جس کا مصنف ذمہ دار نہیں ۔

ناول کے کسی بھی حصے کو کاپی کرنا، نقل کرنا یا چوری کرنا قانوناََ  اور اخلاقی جرم ہے ۔ جملہ حقوق  اللہ عزوجل اور اس کے پیاروں کے بعد بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔

 

Post a Comment

0 Comments