گرین سیریز کا ناول نمبر 10 جلد ہی پبلش کیا جائے گا۔

#

Psycho Episode 6 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

Psycho Episode 6 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

PSYCHO LORD IN TAXI


سائیکو ــــــ لارڈ کی مخصوص کار میں سوار ہو کر پریذیڈنٹ پاؤس میں پہنچا۔ رات کے پچھلے پہر میٹنگ بلانا مضحکہ خیز کام تھا لیکن موجودہ صورتحال نے سب کو بوکھلانے پر مجبور کر دیا تھا جس وجہ سے رات کے پچھلے پہر بھی میٹنگ بلا لی گئی تھی۔سائیکو کو امید تھی کہ اس وقت کی میٹنگ میں چیدہ چیدہ لوگ ہی شامل ہوں گے مگر اس کے لئے یہ موقع بہت مسرت بھرا تھا کہ وہ ملک کے اہم ترین لوگوں میں بیٹھنے والا تھا جہاں عام شخص کی رسائی مر کر بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ انہی سوچوں میں گم کار کو تیزی سے دوڑائے جا رہا تھا۔اس کی نظریں سامنے سڑک پر جمی ہوئی تھیں جب کہ ہاتھ رینگتے ہوئے کار کے ڈیش بورڈ تک پہنچا۔ ڈیش بورڈ کھول کر اس نے ایک چپٹا سا باکس نکالا اور ڈیش بورڈ بند کر کے یکدم اسٹرینگ چھوڑ دیا۔اس نے نہ صرف اسٹیرنگ چھوڑ دیا تھا بلکہ نظریں بھی باکس کی چیکنگ میں مصروف ہو گئی تھیں اور گاڑی اپنی مرضی سے دوڑے جا رہی تھی۔ سائیکو کے چہرے پر بس پاگل پن چھلک رہا تھا ، باکس میں سے اس نے  سیاہ رنگ کی خوبصورت سی انگوٹھی نکال کر انگلی پر پہنی اور پھر باکس سائیڈ سیٹ پر رکھ کر بوکھلانے کی اداکاری کرتے ہوئے اسٹیرنگ تھام کرجان بوجھ کر پوری قوت سے بریک لگائی۔ گاڑی کے ٹائر احتجاجاََ چیخے تو سائیکو کے ہذیانی قہقہے کار میں گونج اٹھےاور اس نے پوری قوت سے ایکسیلیٹر پر پاؤں دبایا۔کار جمپ لیتی ہوئی غرا کر آگے بڑھی اور آندھی کی سی رفتار سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔ اگر وہ یہی کرتب دن کے اجالے میں کرتا تو  لارڈ کی بہت عزت افزائی ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس اس کے پیچھے ہوتی۔

 پریزیڈنٹ ہاؤس  پہنچ کرگاڑی مخصوص جگہ پارک کر کے وہ عمارت میں داخل ہوا۔ وہاں ملنے والے پروٹوکول کی وجہ سے نقاب کے اندر اس کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔میٹنگ ہال میں پہنچ کر وہ کرسی پر براجمان ہو گیا۔ میٹنگ ہال میں اس وقت وزیرِ دفاع،آرمی اور آئی ۔بی کے چیف کے علاوہ چند ایک خفیہ اداروں کے سربراہان موجود تھے۔ سب کے چہرے اترے ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر سائیکو کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کان پھاڑ قہقہے لگائے مگر وہ لارڈ کی حیثیت سے ایسا کر نہیں سکتا تھا لہذاَ ہنسی کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ہال کا دروازہ کھلا تو صدر صاحب اندر داخل ہوئے ، خلافِ توقع ان کے پیچھے ان کا پی اے بھی میٹنگ ہال میں داخل ہوا۔ میٹنگ کے شرکاء ان کی آمد پر کھڑے ہوئے اور صدر نے بیٹھتے ہوئے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔پی اے ان کے پیچھے کھڑا ہو چکا تھا۔ صدر مملکت کا چہرہ بھی اترا ہوا تھا۔

"حسن امیر صاحب---رپورٹ پیش کریں۔" صدرِ مملکت نے وزیرِ دفاع سے کہا تو وزیرِ دفاع اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور تازہ ترین رپورٹ پیش کی۔

"مسٹر لارڈ ۔آپ  کو پرائم منسٹر اور دیگر کانفرنس کے شرکا کو ڈھونڈنے کی ذمہ داری دی گئی تھی، آپ کی ٹیم نے اب تک کیا کارکردگی دکھائی ہے؟" ---صدر نے سر حسن کے رپورٹ ختم ہوتے ہی لارڈ سے سوال کیا۔

"سر۔میری ٹیم اپنے ٹارگٹ کے بالکل قریب ہے۔ہم جلد ہی اپنا مشن پورا کر لیں گے۔کسی وجہ سے میں اب تک ہونے والی کارروائی بتانا بہتر نہیں سمجھتا۔"سائیکو نے لارڈ کے لہجے میں جواب دیا۔

 اس کا انگوٹھی والا ہاتھ سامنے میز پر رینگنے کے لئے بے تاب تھا۔صدر صاحب نے پی اے کو اشارہ کیا تو وہ ان کی طرف جھکا۔ سائیکو سمیت سب کی توجہ ادھر مبذول ہوگئی تو سائیکو کا میز کی طرف اٹھتا ہوا ہاتھ رک گیا۔ پی اے صدر صاحب کی بات سن کر لارڈ یعنی سائیکو  کی طرف بڑھا ۔وہ لارڈ کے پاس پہنچ کر قدرے جھجکتا ہوا نیچے جھکا۔

"صدر صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ کی ٹیم کے ایک خفیہ ٹھکانے پر تو حملہ ہوچکا ہے، کہیں آپ کی ٹیم ختم تو نہیں ہو گئی؟--- اگر ایسا ہے تو آپ اکیلے کام کیسے کریں گے؟"--- پی انے سرگوشی کرتے ہوئے مودبانہ انداز میں کہا اور پھر سیدھا ہو کر لارڈ کے پیچھے ہی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا جس کا مطلب تھا کہ لارڈ نے اس سوال کا جواب سب کے سامنے ہی دینا ہے ورنہ پی اے اس کا جواب سن کر سیدھا ہوتامگر سائیکو یہ سوال سن کر چونک گیا۔

 یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ صدر صاحب گرین سروس کے خفیہ ٹھکانوں کے بارے میں جانتے ہوتے۔یہ بات ایک خفیہ ادارے کے اصولوں کے خلاف تھی۔ کوئی بھی خفیہ ادارہ اپنے اصلی ٹھکانے کا پتہ کسی کو بھی نہیں بتایا، ڈاج دینے کے لئے اور سب کو مطمن رکھنے کے لئے نقلی آفس بنائے جاتے تھے مگر جس طرح صدر نے بات کی تھی، اس سے ظاہر تھا کہ وہ نہ صرف گرین ہاؤس کے بارے میں جانتے ہیں بلکہ وہ گرین ہاؤس کی تباہی کے بارے میں بھی اصلی حقائق جانتے ہیں یہ بات سائیکو کو الجھا رہی تھی۔ اب تک پیش آنے والے حالات میں یہ پہلا موقع تھا کہ سائیکو الجھن کا شکار ہوا تھا اور نا چاہتے ہوئے بھی وہ سنجیدہ ہو گیا تھا مگر اگلے ہی لمحے اس نے سب خیالات  و خدشات کو ذہن سے جھٹک دیا۔

"نہیں سر۔ایسا نہیں ہے۔ میری ٹیم مشن پر کا م کر رہی ہے۔" اس نے مبہم سے جواب دیا۔

"میں آپ کی ٹیم پرمزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتاسو آج پیش آنے والے

حالات کی جانچ پڑتال میں آئی۔بی کے سپر د کرتا ہوں۔میرا تو یہ بھی خیال ہے کہ تمام مسائل کےپیچھے ایک ہی دشمن ہے مگر اسے ڈھونڈنا آپ لوگوں کا کام ہے۔جس طرح لارڈ کو کام کرنے کے لئے مخصوص وقت ملا ہے اسی طرح آئی بی کے پاس بھی اتنا ہی وقت ہے۔ کرنل عابد---مجھے آپ ساتھ ساتھ رپورٹ کریں گے۔میں چاہوں گا کہ آپ ابھی لارڈ سے پچھلے دنوں ہونے والے سانحہ سے متعلق کی گئی تفتیش کے بارے میں کچھ اہم باتیں جان لیں ہو سکتا ہے اس کیس کی کڑی اس کیس سے جڑتی ہو۔" صدر نے اٹھتے ہوئے آئی بی کے سربراہ کرنل عابدکی طرف دیکھتے ہوئے کہاجس کا مطلب تھا کہ میٹنگ برخاست ہو چکی ہے۔

 صدر صاحب تو باہر جا چکے تھے مگر ان کا پی اے ابھی تک  سائیکو ---لارڈ کے پیچھے موجود تھا اور اس کی موجودگی سائیکو کو بہت بے چین کر ہی تھی۔ اس کے ذہن میں کیڑے کلبلانے لگے تھےاور چھٹی حس نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ بہت بڑی گڑبڑ ہو چکی ہے، صدر صاحب کا رویہ، پی اے کا اس کے پیچھے کھڑے ہونا، صدر صاحب کی گرین سروس اور ٹھکانوں کے حوالے سے بات  --- یہ سبھی حقائق ظاہر کر رہے تھے کہ کچھ بڑی گڑبڑ ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے۔

اس نے جلدی جلدی کرنل عابد کو گرین سروس کی طرف سے کی گئی تفتیش کے اہم پوائنٹس بتائے اور اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جلد سے جلداس ہال سے نکلنا چاہتا تھا ــــــ ہال سے نکل کر تیز ی سے چلتا ہوا عمارت کے عقبی طرف پہنچا، یہ رستہ لارڈ کے لئے مختص تھا۔ جیسے ہی وہ عمارت سے نکلا۔اس کے قدم جیسے زمین میں دھنس گئے اور نقاب کے اندر اس کا منہ کھل گیا۔ سامنے جہاں وہ  لارڈ کی مخصوص کار چھوڑ گیا تھا اب وہاں ایک پھٹیچر سے ٹیکسی کھڑی تھی جس کے ساتھ ایک لمبے قد --- بھاری وجود کے ساتھ  بھینس کی طرح سر جھکائے ---ڈھیلے لباس والا نشئی قسم کا ڈرائیور کمر ٹکائے سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔ لارڈ---سائیکو---کو دیکھتے ہی اس نے سگریٹ پھینکی اور بھونڈے سے انداز میں ہاتھ سر کے پاس لے جا کر سلیوٹ کیا۔

"صاحب آپ کی لیمن زِین حاضر ہے۔" ڈرائیور نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا، وہ لہجے سے ان پڑھ محسوس ہو رہا تھا ، ویسے بھی وہ لیموزین کے لفظ کو بگاڑ کر بول رہا تھا جو اس کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

سائیکو کا دماغ ایک بار تو بالکل صاف ہو گیا۔اسے سمجھ ہی نہ آئی کہ ہو ا کیا ہے ،وہ ساکت و جامد کھڑا سوچنے کی کوشش کرتا رہا، پھر جب حواس قائم ہوئے تو---اس نے سوچا کہ کسی طرح یہ سب ہونے کا سبب معلوم کرے---اس سوچ نے اس کے قدم ٹیکسی کی طرف بڑھا دیے اور وہ پاؤں پٹختا ہوا ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تو ٹیکسی ڈرائیور تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ پر پہنچ گیا۔ اس نے بہتیری کوشش کی مگر ٹیکسی سٹارٹ نہ ہوئی تو اس نے سہمی ہوئی نظرو  ں سے نقاب پوش سائیکو کی طرف دیکھا۔

"صاحب ۔۔یہ دھکے کے بغیر سٹارٹ نہیں ہو گی۔" وہ خوفزدہ محسوس ہو رہا تھا۔

"تو میں دھکا لگاؤں؟"--- سائیکو نے غرا کر پوچھا۔اس کی ساری انجوائمنٹ خاک ہو چکے تھی اور وہ یکدم چڑچڑا سا ہو گیا تھا۔

"نہیں صاحب ---اگر آپ برا نہ منائیں تو  ---میں دھکا لگاتا ہوں  ---آپ اسٹیرنگ سنبھالیں۔"ڈرائیور نے تجویزپیش کی تو سائیکو نے یوں جھٹکے سے مڑ کر دیکھا کہ ڈرائیور بوکھلائے ہوئے انداز میں دور ہونے کی کوشش میں کھڑکی کے شیشے سے زور سے ٹکرایا۔

"دفع ہو جاؤ اور دھکا لگاؤ۔"سائیکو نے حلق کے بل چیختےہوئے کہا۔ ابھی تو یہ غنیمت تھا کہ یہ رستہ لارڈ کے لئے مختص ہونے کی وجہ سے اس طرح نہ تو کیمرے لگے ہوئے تھے اور نہ ہی کوئی ذی روح اس طرف آتا تھا ورنہ جو درگت جعلی لارڈ کی بن رہی تھی اس سے اصلی لارڈ کی حیثیت بہت نقصان پہنچتا۔

ڈرائیور اسے ٹیکسی سے اترا جیسے اس کے پیچھے موت لگی ہو اور اس نے گاڑی کودھکا لگانا شروع کیا۔ سائیکو گاڑی کے اندر سے ہی ڈرائیونگ سیٹ پرشفٹ ہو چکا تھا۔ ڈرائیور نے کافی محنت کے بعد ٹیکسی کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوا۔ تھوڑا سے دوڑنے کے بعد آخر کار ٹیکسی سٹارٹ ہوئی تو ڈرائیور دوڑ کر اسٹیرنگ والی سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر پہنچ گیا۔وہ جس طرح ہانپ لگ رہا تھا لگتا تھا کہ اب مرا کہ تب--- اس کی حالت دیکھ کر سائیکو نے خود ہی ٹیکسی چلانے کو ترجیح دی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ بناسپتی لارڈ ۔۔اپنی شان و شوکت کے ساتھ ایک پھٹیچر سی ٹیکسی چلا رہا تھا اور سائیڈ سیٹ پر ٹیکسی کا نشئی ڈرائیور نیم مردہ حالت میں ہانپ رہا تھا۔

 جب سائیکو کے دماغ میں پچھلی ساری کاروائی فلم کی صورت میں گزری تو یکدم اس کے منہ سے ہذیانی قہقہے نکلنا شروع ہوئے، اس کی جو درگت بنائی گئی تھی اسے ، اس میں بہت مزہ آیا۔اس کے قہقہوں کی وجہ سے ڈرائیور اور سہم گیا اور سیٹ کے ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھ گیا تھا۔

سائیکو کے ذہن کا ایک ، دو بار تو فیوز اڑا مگر اب پھر وہ اپنی پرانی حالت میں لوٹ آیا تھا۔اس کا ذہن اب بس ایک پوائنٹ پر الجھا ہوا تھا کہ یہ سب کچھ کون کر رہا ہے--- لارڈ اس کے اڈے میں قید تھا، گرین سروس ختم ہو چکی تھی۔ صدر صاحب کے ساتھ موجود ان کا پی اےاب سائیکو کی نظروں میں کھٹک رہا تھا، پھر یہ نشئی ڈرائیور اور-- سب سے بڑھ کر ایوانِ صدر سے لارڈ کی کار کا غائب ہونا اور اس کی جگہ ایک پرائیویٹ ٹیکسی موجود ہونا--- اس کے مطابق صدر بھی کسی حد تک اس ڈرامے بازی میں شامل نظر آرہے تھے اور شایدیہ بہت بڑے طوفان کی آمد کا اشارہ تھا۔اتنا بڑا طوفان صرف ایک شخص لا سکتا تھا۔ لارڈ---جو پہلے سے ہی سائیکو کی قید اور ٹرانس میں تھا۔یہ پوائنٹ پر سائیکو کا دماغ الجھ جاتا تھا۔ اس نے یہ سوچ کر ذہن سے سب کچھ جھٹک دیا کہ اس ایڈونچر کا ایک سرِا ہاتھ لگنے تک چلتا رہے ــــــــــاب اسے ٹیکسی ڈرائیور کو اسی خاموشی سے روشن پیلس لے جانا تھا  جس کے بعد نشئی کا سارا نشہ ہرن ہو جاتا۔ روشن پیلس پہنچ کر وہ علیم کو کال کر کے لارڈ کے بارے میں پوچھ لیتا تو راحت ملتی۔

ٹیکسی ---چھکڑے کی طرح شور کرتی ہوئی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد روشن پیلس کے سامنے پہنچی تو سائیکو  کو ایک جھٹکا لگا۔روشن پیلس کی تمام بتیاں جل رہی تھیں۔سائیکو نے بہت کم بتیاں جلا کر گیا تھا، اس کا مطلب تھا کہ کوئی روشن پیلس میں گھس چکا ہے، سائیکو کے منہ سے ایک طویل سانس نکلی اور اس نے ٹیکسی کو آگے بڑھا دیا۔

 روشن پیلس میں جانا اب اس کے لئے بہت بڑا خطرہ تھا۔اسے شک ہونے لگا تھا کہ لارڈ اس کی قید سے نکل چکا ہے، مگر وہ اس کی ٹرانس سے کیسے نکلا ، یہ بات سائیکو کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔ نشئی ڈرائیور اب سو چکا تھا--- سوچتے سوچتے اس کی نظریں گھوم کر نشئی پر رک گئیں اور پھر------------

 

 ❤

 

مسلم ممالک کے درمیان ہونے والی کانفرنس کی تیاری پاک سٹیٹ میں کافی عرصے سے چل رہی تھی۔ سٹیٹ کی حکومت کا یہ کانفرنس منعقد کرنے میں بہت اہم کردار تھاکیونکہ اس کانفرنس کے بعد ہونے والے معاہدے کی وجہ سے مسلم دنیا بہت تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتی جس کے لئے انہیں کسی بیرونی مدد کی ضرور ت نہ رہتی۔ ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کی مدد کے تحت ہر ملک کا دفاعی نظام بہت اچھا ہوجاتا۔ جب سٹیٹ نے اس سلسلے میں عملی طور پر کام شرو ع کیا تو لارڈ نے ازخود اس کام میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ اس کے خیال کے مطابق اس کانفرنس کی جتنی اہمیت تھی اسی لحاظ سے اس کو ثبوتاژ  کرنے والی قوتیں بھی حرکت میں آ جائیں گی۔ اس متوقع خطرے سے نپٹنے کے لئےوہ کانفرنس کے لئے مخصوص کی گئی جگہ---قومی سیکرٹریٹ باقاعدگی سے جانے لگا اور ہر ایک چیز کی چیکنگ کرنے لگ گیا۔اسی دوران کانفرنس ہوئی اور پھر وہاں مجرموں نے حملہ کر دیا۔ اس سارے کیس میں کسی بھی جگہ پرلارڈ کو کوئی بھی مشکوک آدمی نہیں ملا تھا --- اور تو اور لارڈ ---سائیکو کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا تھا مگر سائیکو کے انداز اور اس کی پہنچ سے ایک بات تو واضح تھی کہ وہ لارڈ اور اس کی ٹیم کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے جو کہ لارڈ کے نزدیک بہت خطرناک بات تھی۔

سپارک ،سائیکو کے اڈے سے نکل کر سُرعت سے روشن پیلس کی طرف روانہ ہوا۔وہ جانتا تھا کہ ان حالات میں کوئی نہ کوئی میٹنگ یا مصروفیت سائیکو کو روشن پیلس سے ضرور نکالے گی کیونکہ وہ لارڈ کے روپ میں تھے۔ اس بار اس نے روشن پیلس میں داخل ہونے کا ایک ایسا خفیہ راستہ استعمال کیا جسے استعمال کرنے کی ضرورت اسے آج تک نہیں پڑی تھی۔

یہ رستہ روشن پیلس سے بہت دور ایک بس سٹیشن کے قریب نکلتا تھا۔ رستے کومحفوظ رکھنے کے لئے اس نے مناسب اقدامات کیے ہوئے تھے جن کی وجہ سے کوئی بھی انجان آدمی ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکتا تھا۔ وہ اس رستے ، پیدل چلتے ہوئے روشن پیلس کے سرونٹ کوارٹر کے نیچے والے چھوٹے سے تہہ خانے میں پہنچا اور وہاں موجود ایمرجنسی سکیورٹی سسٹم کے تحت لگائے گئے کیمروں سے جڑا کمپیوٹر آن کیا۔یہ کمرہ ساؤنڈ پروف تھا۔ سسٹم آن ہوتے ہی اس نے دیکھا کہ لارڈ کی مخصوص کار عمار ت سے نکل رہی ہے۔

وہ تیز رفتاری سے زمین دوز رستے کے ذریعے اپنے مخصوص کمرے کے نیچے پہنچا اور ایک خاص جگہ پر رک کر اس نے  زمین پر زور سےایڑی ماری۔ گھرر---کی آواز کے ساتھ ہی وہ جگہ ، جہاں اس کے پاؤں تھے، جیک کی طرح بلند ہوتی گئی اور ابھی وہ چھت کے پاس نہیں پہنچی تھی کہ چھت ایک جگہ سے پھٹ گئی۔ جیک اس پھٹی ہوئی جگہ سے اوپر پہنچ کر رک گیا۔ سپارک اب گہرے اندھیرے میں موجود تھا۔ اس نے دیوار پر ایک سمت ہاتھ مارا۔اس کا انداز ایسا تھا جیسے وہ اندھیرے میں بھی سب کچھ دیکھ رہا ہو۔ اس نے جس پر ہاتھ مارا تھا وہ دیوار نہیں تھی ---لکڑی تھی۔ اگلے ہی لمحے سامنے موجود بند حصہ کھل گیا۔ سپارک اپنی مخصوص میز کے اندر سے برآمد ہوا اور کرسی کو دھکیلتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔اس نے میزکو ایک مخصوص جگہ پر ٹھوکر ماری تو کھلا ہوا میز دوبارہ بند ہو گیا۔ ویسے تو اس کے ریکارڈ میں روشن پیلس کے حفاظتی اور خفیہ سسٹمز کی فائل پڑی تھی لیکن اس نے بہت سی چیزیں احتیاطََ اس فائل میں درج نہیں کی تھیں  اور اپنا یہ فیصلہ آج اسے درست محسوس ہوا ۔ اگر اس فائل میں اس رستے کا ذکر ہوتا تو سائیکو اب تک اس رستے کو بھی سپارک کے لئے ٹریپ بنا چکا ہوتا۔

اپنی کرسی سنبھالتے ہی اس نے سب سے پہلے فاکس کو کال کر کچھ ہدایات دیں، پھر اس نے صدرِ مملکت کےساتھ رابطہ کر کہ ان کو کچھ سچ اور کچھ رازداری کے اصول کرا پناتے ہوئے سائیکو والا مسئلہ انہیں بتایا اور اپنا اگلا پلان بھی بتا دیا۔ پہلے تو صدر صاحب کا مزاج گرم بھی ہوا اور وہ پریشان بھی ہوئے لیکن سپارک کے معاملے میں پتہ نہیں کیوں وہ نرم پڑ جاتے تھے ۔انہوں نے سپارک کو اپنی مرضی کرنے کی اجازت دے دی۔کالز سے فارغ ہو کر سپارک نے خود عمارت کا چکر لگایا۔ ایک جگہ اس کے چہرے سے رسی ٹکرائی تو اس نے چونک کر چھت کی طرف دیکھا۔ پھر چھت پر جا کر اس نے ایک دستانہ اور پیزا کا ایک ڈبہ دیکھا جس میں ابھی کچھ پیزا موجود تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے وہ ڈبہ اور دستانہ اٹھایا اور رسی کھول کرنیچے پھینک دی۔ خود وہ سیڑھیوں سے واپس پہنچا۔ دستانہ اور ڈبہ دیکھ کر اس کے ذہن میں ایک خیال ابھرا۔ اس نے دونوں چیزوں کو سنبھال کر رکھ دیا اور مڑ کو کمرے سے نکل گیا۔ اس نے ساری عمارت کی بتیاں روشن کیں اور ڈریسنگ روم میں پہنچ کر ---جسم پر پیڈنگ کی تاکہ  سائیکو کو اسے آسانی سے پہچان نہ سکے،بے ڈھنگا سا لباس پہنا، چہرے پر بھرپور قسم کا مگر نشئیوں جیسا  میک اپ کیا اور نقاب جیب میں ڈالے ، گیراج کی طرف بڑھ گیا۔

گیراج سے ایک شاندار سپورٹس کار اچھل کر باہر نکلی اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ سڑک پر نکلتے ہی کار کا رخ ایوانِ صدر کی طرف مڑگیا ۔ لارڈ اپنے اصل رنگ میں آ چکا تھا اور بے حد پرسکون نظر آرہا تھا---

 اس کا مطلب یہ تھا کہ اب سائیکو کا وقت پورا ہو چکا تھا۔

صدرِ مملکت کی طرف سے اسے مغوی افراد کو ڈھونڈنے کا جو مشن ملا تھا اس میں سے تین دن گزر چکے تھے ۔ درمیان میں سائیکو کے کود پڑنے کی وجہ سے سب کچھ درہم برہم ہو گیا تھا۔اب سپارک کے سامنے دو مشنز تھے، ایک جو صدر صاحب نے اس کے ذمے لگایا تھا اور دوسرا  ---سائیکو نے اب تک جو گل کھلائے ہیں انہیں سنبھال کر سائیکو پرہاتھ ڈالنا۔سائیکو کے دوکارنامے تو وہ ٹی وی پر دیکھ چکا تھا۔ اسے یقین تھا کہ سرحد پر ہونے والی تباہی میں سائیکو کا ضرور ہاتھ ہے۔ اس کا اندازہ تھا کہ  گرین ہاؤس والے حادثے کے پیچھے بھی کوئی راز ہے۔ مگر فی الوقت اس راز کے پیچھے پڑنا مناسب نہیں تھا نہ ہی وہ ٹیم سے الجھنا چاہ رہا تھا، فی الوقت سب سے ضرور سائیکو پر ہاتھ ڈالنا تھا کیونکہ وہ ایوانِ صدر میں گھس چکا تھا اور وہاں کوئی بھی نقصان دہ حرکت کر سکتا تھا جسے پہلے قدم پر  روکنے اور الجھانے  کے لئے اس نے فاکس کو کال کی تھی۔

            اس نے فاکس کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ایوانِ صدر میں نقلی لارڈ ہے اس سے لارڈ کے عہدے کا بھرم جاتا رہتا ۔ اس نے فاکس کو ہدایت کی تھی وہ پی اے کے میک اپ میں صدرِ مملکت کے ساتھ میٹنگ میں جائے گا اور پھر صدر صاحب کی ہدایات پر عمل کرے  گا۔ اس کا کام لارڈ کے سامنے موجود لوگوں پر نظر رکھنا ، صدر اور لارڈ کی ہدایات پر عمل کرنا تھا۔ اس سے فاکس کے ذہن میں تو یہی بات گئی کہ وہ  لارڈ کی حفاظت کر رہا ہے---جب کہ سائیکو اس کے انداز کی وجہ سے الجھ کر کوئی اوچھی حرکت نہ سکا۔

ایوانِ صدر کے گیٹ پر اس نے ادھ کھلی کھڑکی سے ایک کارڈ سامنے موجود فوجی کی طرف بڑھایا۔ فوجی وہ کارڈ لے کر اندر داخل ہوا اور پھر جیسے اڑتا ہوا واپس آیا۔ اس نے سپارک کو سلام کیا اور دروازہ کھول دیا۔سپارک اپنی کار پارکنگ میں روک کر باہر نکلا۔ گیٹ پرملنے والا فوجی بھی اس کے پیچھے پہنچ چکا تھا---لارڈ نے اس کی طرف دیکھا۔

"سر۔۔۔ٹیکسی عمارت کے عقب میں موجود ہے۔" فوجی نے مودبانہ لہجے میں کہا تو لارڈ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔فوجی اسے بڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے سامنے ایک لمبے قد کا نوجوان تھا جو  بہت ہی پرانے اور قدرے گندے کپڑوں  میں ملبوس تھا اور چہرے سے حد درجے کا نشئی نظر آرہا تھا لیکن فوجی جانتا تھا کہ اس نشئی نما نوجوان کی اتھارٹی کیا ہے۔فوجی مودبانہ انداز میں اس کے پیچھے چل رہا تھا۔ وہ نوجوان تیزتیز قدم اٹھاتا ہوا عمات کے عقب میں پہنچا۔ سامنے لارڈ کی مخصوص کار اور ساتھ ایک پھٹیچر سے ٹیکسی کھڑی تھی۔ لارڈ تیزی سے کار کی طرف بڑھا اور مخصوص جگہ پر دباؤ ڈالا تو کار کا دروازہ کھل گیا۔ کار میں سوار ہوتے ہی اس نے کار سٹارٹ کی اور اس کار کو پارکنگ میں چھوڑا اور خود واپس پھٹیچر ٹیکسی کے پاس پہنچ گیا۔ فوجی کو اس نے واپس جانے کی ہدایت کی اور سگریٹ کی ڈبی نکال کر ایک سگریٹ جلا کر نشئیوں کی طرح کَش لگانے لگا۔

اسے زیادہ دیر انتظار نہیں کر نا پڑا تھا۔ سامنے دروازے سے سائیکو---لارڈ کا روپ دھارے برآمد ہوا ۔ اس کی چال اور انداز سے سپارک کو محسوس ہوا کہ وہ پریشانی یا بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اس نے سگریٹ پھینک کر لہجہ بدلتے ہوئے اسے سلام کیا۔سپارک نے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور جسم کو قدرے جھکائے رکھا ، اوپر سے اس کا میک اپ بھی بہت کمال کا تھا جس وجہ سے سائیکو اس کا پہچا ن نہ سکا۔خود سائیکو اس وقت الجھا ہوا تھا۔ سپارک گاڑی کا دھکا لگانے کے بعد ہانپنے اور کھانسنے کی اداکار ی کرتے ہوئے ساتھ والی سیٹ پرگر گیا۔ وہ سائیکو کو ذہنی طور پر پریشان کرنے کے لئے یہ سب کر رہا تھا۔ٹیکسی کی حالت کے پیشِ نظروہ جانتا تھا کہ روشن پیلس پہنچنے تک بہت وقت لگے گا۔سپارک نے سونے کا ناٹک کر نا ہی بہتر سمجھا۔ روشن پیلس کے سامنے پہنچ کر ٹیکسی رکی تو اس نے آنکھیں کھولیں۔سائیکو ابھی تک نقاب میں تھا اور یک ٹک سامنے روشن پیلس کو دیکھ رہا تھا۔ سپارک نے جاتے ہوئے جان بوجھ کر ساری بتیاں آن کی تھیں تا کہ سائیکو یہ جان لے کہ روشن پیلس میں کوئی گھس چکا ہے ۔اب اگر سائیکو اندر داخل ہوتا تب بھی اور اگر وہ کہیں اور نکل پڑتا---تب بھی وہ سپارک کے سامنے تھا۔سائیکو نے جھنجھلاتے ہوئے ٹیکسی کو آگے بڑھا دیا۔ کچھ دیر بعد وہ ہذیانی قہقہے لگانے لگ گیا تو سپارک نے خوفزہ ہونے کے باکمال اداکاری کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا مگر سائیکو تو کہیں اور ہی کھویا ہوا تھا۔

"صاحب۔۔مجھے تو یہاں تک کا ہی کرایہ دیا گیا تھا۔" سپارک نے ڈرائیور کے لہجے میں گھبراتےہوئے کہا۔

"چپ کر کے بیٹھو۔" سائیکو نے غرا کر کہا تو سپارک سہم کر سیٹ کے ایک کونے پرٹِک گیا۔

"تمہیں کس نے ہائر کیا تھا؟"--- سائیکو نے اس بار نرم لہجے میں پوچھا۔

"میں آپ کی بات سمجھا نہیں؟آپ نے خود سڑک پر مجھے روکا، پھر عمارت کے اندر لے کر گئے اور مجھے کھڑ اکر کے اندر چلے گئے تھے کہ میں وہاں انتطار کروں۔" نشئی نے اسے جھومتے ہوئے جواب دیا۔

"کیا بکواس ہے۔تم مجھے پاگل سمجھتے ہو؟"---سائیکو نے غرا کر کہا تو نشئی دوبارہ سہم گیا۔

"سس۔۔۔سس۔۔سائیکو۔۔"نشئی نے جواب دیا تو سائیکو کو اس کے منہ سے اپنا نام سن کر جھٹکا لگا۔

"تم میرا نام کیسے جانتے ہو؟"--- سائیکو نے پوچھا۔

"آپ نے خود یہ نام مجھے بتایا تھا، نام بتاتے ہی آ پ پاگلوں کی طرح ہنسنے لگ گئے تھے۔۔اوہ۔۔سس۔سس۔سوری ۔۔غلط بول گیا۔۔آپ دل پھاڑ۔۔مم۔۔میرا مطلب ہے کہ دل کھول کر ہنسنے لگ گئے تھے۔" نشئی مکمل طور پر بوکھلایا ہوا لگ رہا تھا۔سائیکو کا رخ اپنے اس اڈے کی طرف تھا جہاں وہ لارڈ کو چھوڑ کر آیا تھا۔تھوڑی دیر بعد پھٹ پھٹ کرتی ٹیکسی دونوں لارڈز کو لے کر اپنی منزل پر پہنچ گئی۔جیسے ہی ٹیکسی گیٹ پر رکی تو سپارک نے دروازے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

"بیٹھے رہو۔" سائیکو نے درشت لہجے میں کہا تو سپارک ظاہر ی طور تو سہم گیا لیکن اندرونی طور پر وہ کھٹک گیا کہ سائیکو اسے اپنے اڈے کے اندر کیوں لے کر جا رہا ہے مگر وہ بولا کچھ نہیں۔اس نے دو تین بار ہارن بجایا پھر بھی دروازہ نہ کھلا تو سائیکو کے جبڑے بھنچ گئے۔ اس کا مطلب تھا کہ لارڈ وہاں سے نکل چکا ہے۔ سائیکو الجھن میں پڑ گیا کہ جا کر خود دروازہ کھولے یا کیا کرے۔اسی وقت گیٹ کھلتا گیا۔علیم دروازہ کھول رہا تھا۔ سائیکو ٹیکسی اندر لے گیا اور پورچ میں کھڑا کر کہ باہر نکلا۔ اس نے علیم کو قریب بلا کر خفیہ جیب سے چپٹا سا پسٹل نکال کر اسے تھمایا اور خود اندر چلا گیا۔ علیم پسٹل پکڑے محتاط نظروں سے ٹیکسی میں موجود نشئی کو گھورنے لگا۔کچھ دیر بعد سائیکو واپس آ گیا۔اس نے علیم کو کان میں کچھ کہا تو علیم سر ہلاتے ہوئے اندر چلا گیا۔ سائیکو پسٹل پکڑے سپارک کی طرف آیا اور گاڑ ی کا دروازہ کھولا۔

"باہر نکل آئیں لارڈ صاحب---" سائیکو نے مضحکہ خیز انداز میں کہا تو سپارک  کے چہرے پرمسکراہٹ ابھری جیسے اسے سائیکو سے اسی بات کی امید تھی۔وہ دوسری طرف سے نیچے اترا۔سائیکو نے چہرے سے نقاب ہٹا دیا ---مگر وہ تھا میک اپ میں ہی۔

"میں تسلیم کرتا ہوں کہ آج تک میرا سامنا تم جیسے شخص کے ساتھ نہیں ہوا مگر مجھے یقین  ہے کہ تم میرے جیسے کسی شخص کے ساتھ بھی آج تک نہیں ٹکرائے ہو گے۔" سائیکو نے دانت نکالتے ہوئے کہا ---

لارڈ نے ہلکی سی مسکراہٹ پرہی اکتفا کیا۔

"مجھے امید نہیں تھی کہ اس ملک میں مجھے کوئی اس طرح سے ٹکر دے گا۔مجھے حیرت ہے کہ تم میرے ٹرانس سے کیسے نکلےلیکن میں تم سے پوچھوں گا نہیں کیونکہ میرے خیال سے تم اس راز سے پردہ نہیں اٹھاؤ گے۔" سائیکو نے لان کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے کہا۔سائیکو اس

وقت بہت ہی سنجید ہ قسم کا شخص نظر آرہا تھا۔"سیلف ٹرانس کی تکنیک کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بہت سے ایسے راز بھی ہوں گے جو چاہ کر بھی میں تم سے نہیں جان سکامثلاََ کانفرنس کے شرکاء کو غائب کرنے میں اگر تمہارا ہاتھ ہے تو تم نے ٹرانس میں ہوتے ہوئے بھی مجھے یہ بات نہیں بتائی۔"۔

"ممکن ہے لیکن چھوڑو یہ طلسم ہوشربا ــــــ لیبارٹری تباہ کرنے کے علاوہ تم نے اور کیا کیا مسئلہ پیدا کیا ہے؟"- لارڈ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔دونوں کے انداز سے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ پرانے دوست ہوں اور پارک میں سیر کرنے نکلے ہوں۔

"توبہ توبہ۔۔میں کچھ بھی تباہ نہیں کیا۔۔۔ہاہاہاہا۔۔ایک لیبارٹری گرین سروس نے تباہ کی اور دوسری میں سے ان کا چیف ایک فارمولا لے اڑا۔ہاہاہاہاہا۔۔۔تمہارا آدمی ایوانِ صدر میں میرے پیچھے کھڑا نہ ہوتا تو اب تک آئی بی کا چیف ---کرنل عابد مر چکا ہوتا۔ماننا پڑے گا، جتنا تمہاری رفتار کے بارے میں سُنا تھا تم اس سے بھی تیزی سے معاملات کو سمجھ جاتے ہو مگر تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہونے والا۔میں جانتا ہوں کہ تم میرے ساتھ کیوں چپکے ہوئے تھے۔نہ تو تم اب وہ فارمولا مجھ سے حاصل کر سکتے ہو اور نہ ہی لیبارٹری واپس پا سکتے ہو۔ہاہاہاہا۔۔" اس کی ذہنی رو تبدیل ہو گئی۔

"یہ سب تو میں کر ہی لوں گا۔تمہیں کس نے ہائر کیا تھا؟  میرے خیال سے تمہارا مقصد تو کانفرنس کو برباد کرنا تھا پھر تم ان کاموں میں کیوں پڑ

گئے؟"--- لارڈ نے پرسکون لہجے میں کہا۔

"ہاہاہاہا۔۔۔تو تم میرا مقصد بھی جانتے ہو۔۔ویری امپریوسو۔۔۔میرا مقصد وہی تھا مگر تم نے میری راہ میں ٹانگ اڑائی۔۔باقی جو کچھ اب تک ہوا ہے یہ تمہاری سزا ہے۔" سائیکو نے کہا۔

"تمہیں کس ملک نے ہائر کیاہے؟"---لارڈ نے اس کی کسی بات کا بھی اثر نہ لیا تھا، وہ اپنی بات پراڑا ہوا تھا۔

"یہ کسی ایک ملک کا کام نہیں۔۔چھوڑو اس ذکر کو۔۔تم کونسا زندہ رہنے والے ہو۔۔مجھے تمہاری سیٹ بہت پسند آئی۔۔در در بھٹکنے کی بجائے میں اب مستقل اس طاقتور سیٹ پر رہنے کا ارادہ بنا چکا ہوں۔" سائیکو یکلخت مڑا، اس کے ہاتھ میں موجود پسٹل کا رخ لارڈ کی طرف تھا، اسی وقت جیسے بجلی چمکتی ہے، لارڈ عقبی طرف جھکا، اس نے اپنا سارا وزن اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور سپرنگ کی طرح اچھل کر سیدھا سائیکو سے ٹکرایا، اس کی دونوں ٹانگیں سائیکو کے سینے پر لگیں، سائیکو غراہٹ کے ساتھ زمین پر آ رہا،اس کے ہاتھ سے پسٹل نکل کر اندھیرے میں گم ہو گیا۔ سائیکو کا ہاتھ گھوما اور اندھیرےمیں کوئی چیز چمکی ، لارڈ تیز ی سے جھک گیا۔اگر اسے جھکنے میں ایک سیکنڈ کی بھی دیر ہو جاتی تو خنجر اس کے سینے میں گھس جاتا، ابھی وہ سیدھا ہی ہوا تھا کہ اسے اپنی ران پھٹتی ہوئی محسوس ہوئی، اس کے منہ سے غراہٹ نکلی۔سائیکو نے ایک خنجر تیزی سے دے مارا تھا جو سیدھا لارڈ کی ران میں گھس گیا تھا۔ لارڈ نے وہ خنجر اپنی ران سے کھینچا کر سائیکو کی طرف پھینکا، سائیکو اچھل کر ایک سائیڈ پرہو کر مسکرایا ہی تھا کہ خنجر اس کی ران میں گھسا اور وہ جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹا۔ لارڈ نے پہلی بار خالی ہاتھ گھمایا تھا ، سائیکو اس کے جھانسے میں آکر جب تھوڑا ریلیکس ہوا تب اس نے خنجر چھوڑا، اور جان بوجھ کر سائیکو کی ران کا نشانہ لیا۔سائیکو تیزی سے لنگڑاتے ہوئے اس کی طرف بڑھا اور قلابازی کھا کر دونوں ٹانگیں اینٹی کلاک وائز گھماتے ہوئے لارڈ کے سر کا نشانہ لیا---اس کی پھرتی کے باوجود لارڈ نے صرف اپنی ٹانگ بلند کی تو سائیکو کا جسم جھٹکا کھا کر ہوا میں بلند وہ کر دو جا گرا۔اس کے گرتے ہی عجیب سی آواز آئی تو لارڈ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اپنی جگہ سے ہٹ گیا۔ اس کی یہ حرکت ، اس کی جان بچا  گئی۔ سائیکو کہیں گٹر لائن کے ڈھکن پر جا گرا تھا، اس نے فوری وہ ڈھکن اٹھا کر لارڈ کو دے مارا تھا جس سے لارڈ بچ گیا تھا اوروہ جھکے جھکے انداز میں آگے کو دوڑا---کیونکہ اس کے ذہن میں ایک خدشہ ابھرا تھا ، مگر وہی ہوا جس کا اسے خدشہ تھا، سائیکو گٹر لائن میں اتر چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ  لارڈ اس کے پیچھے اترتا---گٹر لائن میں زوردار دھماکا ہوا اور لائن ایک طرف سےبیٹھ گئی۔ سائیکو نے  لارڈ کا رستہ بلا ک کر دیا تھا ۔ لارڈ کے چہرے پرپہلی بار سختی عود آئی۔

اس نے سائیکو کو ڈھیل اس وجہ سے دی تھی کہ سائیکو کے کارنامے جان سکے۔ وہ کارنامے تو جان چکا تھا مگر سائیکو ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ سائیکو کے پاس بہت ہی حساس قسم کی معلومات تھیں جن کی وجہ سے سائیکو کا خاتمہ ضروری تھا۔ اگلے لمحے اس کا چہرہ نارمل ہو گیا جس پر معمول کے مطابق مسکراہٹ اور بلا کا سکون تھا۔ اب اسے سب سے پہلے وہ فارمولا حاصل کرنا تھا جو سائیکو نے لیبارٹر ی سے چرایا تھا اور لارڈ جانتا تھا کہ وہ کیسے واپس حاصل کرنا ہے۔ سائیکو نے اسے چھیڑ کر ایک بھیانک غلطی کر دی تھی۔مگر  سائیکو کے لئے اب اس غلطی کا ازالہ  آسان نہیں تھا۔

 


پہلی  پانچ اقساط کے لئے

کلک کیجیے

پی ڈی ایف میں مکمل ناول حاصل کرنے کے لئے 250 روپے ایزی پیسہ کر کے واٹس ایپ پر رابطہ کیجئے۔

03435941383 (واٹس ایپ+ ایزی پیسہ)

(تبصرہ/رائے کے اظہار کے لئے  لنکس)

www.facebook.com/groups/ibnetalib

 

ناول کے تمام کردار، مقامات، واقعات فرضی ہیں اور مصنف کی اپنی تخلیق ہیں۔ جن میں کسی بھی قسم کی کلی یا جزوی مطابقت محض اتفاقیہ امر ہو گا جس کا مصنف ذمہ دار نہیں ۔

ناول کے کسی بھی حصے کو کاپی کرنا، نقل کرنا یا چوری کرنا قانوناََ  اور اخلاقی جرم ہے ۔ جملہ حقوق  اللہ عزوجل اور اس کے پیاروں کے بعد بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔

 

Post a Comment

0 Comments