گرین سیریز کا ناول نمبر 10 جلد ہی پبلش کیا جائے گا۔

#

Psycho Episode 3 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

Psycho Episode 3 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

LORD A PRISONER OF PSYCHO 

ناول کے تمام کردار، مقامات، واقعات فرضی ہیں اور مصنف کی اپنی تخلیق ہیں۔ جن میں کسی بھی قسم کی کلی یا جزوی مطابقت محض اتفاقیہ امر ہو گا جس کا مصنف ذمہ دار نہیں ۔

ناول کے کسی بھی حصے کو کاپی کرنا، نقل کرنا یا چوری کرنا قانوناََ  اور اخلاقی جرم ہے ۔ جملہ حقوق  اللہ عزوجل اور اس کے پیاروں کے بعد بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔

(تبصرہ/رائے کے اظہار کے لئے  لنکس)

www.facebook.com/groups/ibnetalib

تیسری قسط

اندھیرا  اب پاؤں پھیلا رہا تھا ــــــ کبیراور ثانیہ آفیسرز کالونی کی ایک گلی میں کار میں موجود تھے۔ وہ سلیم کے گھر کے سامنے تھے اور سلیم کی گھر آمد کا انتظار کر رہے تھے۔پہلے تو ساحر نے خود ثانیہ  ساتھ وہاں آنا چاہا لیکن پھر وہ گرین ہاؤس چلا گیا تا کہ CC.TV فوٹیج کو ٹھیک طرح سے دیکھ لے۔اس نےکیبر اور ثانیہ کو سلیم کو اغوا ء کرنے کا کہا تھا۔وہ دونوں اب اسی تاک میں تھے کہ کب سلیم نظر آئے اور وہ اسے اٹھا لیں۔ سیکرٹریٹ سے نکلتے وقت ساحر نے پارکنگ کے گارڈ سے سلیم کی گاڑی کی تفصیلات لے لی تھیں ، ثانیہ اب دھیان سے سڑک پر گزرنے والی گاڑیوں کو دیکھ رہی تھی تاکہ سلیم کو گھر داخل ہونے سے پہلے ہی چھاپ لیا جائے۔جبران سڑک کی دوسری طرف بائیک پر موجود تھا ، اس کاکام کبیر اور ثانیہ کی کار کی نگرانی کرنا تھا تا کہ اگر کوئی سلیم پرنظر رکھے ہوئے ہو تو پتہ چل سکے۔

"چیف کو سلیم کے بارے میں بتایا ہے؟" کبیر نے ثانیہ سے پوچھا۔

"ساحر نے کوشش کی تھی لیکن چیف سے رابطہ نہیں ہوا تو اس نے خود ہی سلیم کواٹھانے کا پلان بنا لیا۔" ثانیہ نے جوا ب دیا۔

"ہو سکتا ہے اب تک چیف سے ساحر کا رابطہ ہو چکا ہو۔" کبیر نے  اندازہ لگاتے ہوئے کہا ۔

"عباس کہاں گم ہے ، نظر نہیں آرہا آج کل؟"۔  ثانیہ  نے مسکرا کرپوچھا  ـــ شاید عباس کے ذکر نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلا دی تھی۔

"ساحر سے بتا رہا تھا شہر سے باہر ہے، اس سے زیادہ اس نے بتایا نہیں اور میں نے پوچھا نہیں ۔"۔ کبیر نے بھی مسکرا کر جواب دیا--- اس سے پہلے کہ ثانیہ کوئی جواب دیتی۔ایک سفید رنگ کی کرولا گزری۔

"یہی ہے سلیم ۔۔میں نے کار میں اس کی جھلک دیکھی ہے۔" ثانیہ نے کہاتو کبیر نے جلدی سے گاڑی سٹارٹ کر کے سفید کرولا کے پیچھے ڈال دی۔ ایک منٹ کے سفر کے بعد سفید کار رکی ، کبیر نے اپنی کار کی سپیڈ بڑھائی اور سلیم کی کار کے ساتھ لگا کر روک دی۔ اتنے میں جبران ان کے پاس سے آگے گزر گیا۔ کبیر تیزی سے سلیم کی طرف بڑھا۔

"سر ایک منٹ بات سنیں۔" کبیر نے سلیم سے کہا، وہ ابھی کار سے نکلنے ہی والا تھا ، کبیر کی بات سن کر وہ سیٹ پر ہی بیٹھ گیا۔

"جی فرمائیے۔۔۔" سلیم نے کہا۔

"ضرور۔۔۔کیوں نہیں۔" کبیر نے اس کی طرف جھکتے ہوئے کہا اوراپنا ہاتھ سلیم کے سر کی عقبی طرف رکھ کر اس جھٹکا دیا۔ سلیم کا سر پوری قوت کے ساتھ اسٹیرنگ پر لگااور اس کے منہ سے گالیوں کا طوفان نکلا۔ کبیر نے دوبارہ اس کا سر اسٹیرنگ پردے مارا تو سلیم کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔کبیر نے اس کی نبض چیک کی اور پھر سیدھے کھڑے ہو کر آس پاس دیکھا۔اس نے سلیم کو گھسیٹ کر باہر نکالا اور تیزی سے اپنی کار کی ڈگی کی طرف بڑھا جو ثانیہ پہلے ہی کھول چکی تھی۔ کبیر نے سلیم کو ڈگی میں ڈال کر ڈگی بند کی اور خود سلیم کی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔کار سٹارٹ کی، تب تک ثانیہ دوسری کار آگے بڑھا چکی تھی۔

اب سب سے آگے ثانیہ ، اس کے پیچھے جبران اور اس کے پیچھے کبیر کی کار تھی۔ یہ قافلہ شہر کی وسط میں پہنچ تو کبیر نے سلیم کی کار ایک پارکنگ میں روکی اور خود اتر کر سڑک پر پہنچ کر ایک طرف کو بڑھ گیا۔

ثانیہ سلیم کو لئے ہوئے پندرہ منٹ کے بعد گرین ہاؤس پہنچ چکی تھی۔ ساحر وہاں بیٹھا ابھی تک ویڈیودیکھنے میں مصروف تھا۔

"فلمیں ہی دیکھتے رہو گے یا کوئی کام بھی کرو گے؟" ثانیہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔

"فلم دیکھنا ہی تو اصل کام ہے۔سلیم صاحب آ گئے؟" ساحر نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں۔ڈگی میں ہے ، جبران اب تک لے گیا ہو گیا اسے کلینک ۔بس ڈاکٹر صاحب کاانتظار ہو رہا ہو گا۔" ثانیہ نے مسکرا کر کہا۔

"اچھا نام ہے۔ کلینک۔۔چلو پھر لیٹ نہیں کرنا چاہئے۔مریض کی

حالت خراب ہی نہ ہو جائے۔ پہلے ماسک میک اپ کر لیتے ہیں، اس حلیے میں سلیم ہمیں پہلے دیکھ چکا ہے۔" ساحر نے مسکرا تے ہوئے کہا اور وہ دونوں باہر نکلے۔ راہداری میں چلتے ہوئے  وہ ایک کمرے میں گھسے اور وہاں سے ماسک میک اپ کر کے نکلے او ر سیدھے اپنے کلینک کے سامنے پہنچ کر اندر داخل ہوگئے۔ سامنے کرسی پر سلیم بندھا ہوا تھا جب کہ جبران موبائل میں کھویا ہوا تھا۔

"چیف سے بات ہو گئی؟" ثانیہ نے پوچھا۔

"نہیں۔میں دوبارہ کوشش کی تھی لیکن چیف پتہ نہیں کدھر غائب ہے۔ اب سلیم سے معلومات ملنے کے بعد  دوبارہ رابطہ کروں گا۔" ساحر نے کہا تو ثانیہ نے اثبات میں سر ہلایا، جبران نے آگے بڑھ کر سلیم کے چہرے پر تھپڑ مارنے شروع کئے اور تھوڑی ہی دیر بعد سلیم صاحب کا دماغ حاضر ہو گیا۔

"کک۔۔کون ہو تم لوگ؟" اس نے ہوش میں آتے ہی سوال کیا ۔

"تمہاری موت---" ساحر نے غراتے ہوئے کہا۔

"مم۔۔مم۔۔میں نے کیا کیا ہے؟" اس نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔

"بتاتے ہیں۔تھوڑی دیر تک تمہاری فیملی بھی یہاں پہنچنے والی ہے، پھر بتائیں گے۔" ساحر نے جیسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔

"فیملی ---آپ لوگوں کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔میں نے کچھ نہیں کیا۔پلیز مجھے جانے دو۔" سلیم نے رو دینے والے لہجے میں کہا۔ فیملی کا سُن کراس کے ہوش اڑ گئے تھے۔

"جب تمہارے سامنے تمہارے خاندان کے افراد تڑپ تڑپ کر جان دیں گے تو تمہیں یاد آجائے گا کہ تم نے کیا غلطی کی ہے۔" ساحر نے بے حس انسان کا کردار ادا کرتے ہوئے کہا۔

"لیکن میں نے کیا کیا ہے ؟ "--- اس نے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔

"آج تم دو حکومتی  افسران سے ملے تھے؟"--- ساحر نے کہا تو سلیم چونک پڑا۔

"ہاں---لیکن میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا۔" سلیم نے جلدی سے کہا تو ساحر کی آنکھوں میں یہ سن کر چمک ابھری۔

"تم جھوٹ بول رہے  ہو۔" ساحر نے کہا۔

"میرا یقین کرو ، میں سچ کہہ رہا ہوں۔میں نےانہیں کچھ نہیں بتایا۔" سلیم نے جیسے قسم اٹھاتے ہوئے کہا۔

"کیوں نہیں بتایا ان بے چاروں کو؟" ---ساحر نے یکدم آواز بدلتے ہوئے کہا۔

"کک۔۔کیا مطلب۔۔" ساحر کی بدلی ہوئی آواز سُن کر وہ گڑبڑا گیا۔

"تم نے کیا چھپایا ہے؟"---  ساحر نے سخت لہجے میں پوچھا۔

"مجھے تمہاری کچھ سمجھ نہیں آر ہی ۔۔۔کون ہو تم؟"--- سلیم نے جھلائے ہوئے انداز میں کہا اور اگلے لمحے چٹاخ کی آواز آئی۔ جبران نے اس کے گال پربھرپور قسم کا تھپڑ جڑ دیا۔

"جو پوچھا جا رہا ہے اس کا جواب دو۔"--

"میں کچھ نہیں جانتا ۔۔" اس نے جواب دیا۔

"تم نے کہا تھا کہ ایک دن میں  ملاقاتیوں کوسو سے زیادہ کارڈز ایشو نہیں کئے جاتے۔" ساحر نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔

"ہاں ۔۔لیکن تمہیں کیسے پتہ؟"--- اس نے حیرت سے پوچھا۔

"پھر تم نے حادثے سے دو دن پہلے کارڈ نمبر ایک سو پچیس  اور چھبیس کسے ایشو کیے تھے؟"۔ ساحر نے پوچھا تو سلیم کو جھٹکا لگا۔

"کبھی کبھی ملاقاتی زیادہ بھی ہو جاتے ہیں تو اضافی کارڈز ایشو کیئے جاتے ہیں۔" سلیم نے چند لمحوں کے بعد کہا۔

"اتنے زیادہ ہو گئے تھے کہ ایک سو ایک سے لے کر ایک سو چوبیس تک کارڈز ایشو نہیں ہوئے اور اگلے دو نمبر ایشو ہو گئے۔" ساحر نے طنزیہ لہجے میں کہا تو سلیم کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔

"وہ ممم۔۔۔میں۔۔۔" سلیم کے منہ سے الفاظ نکلنا بند ہوگئے۔

"مسٹر سلیم۔۔یا تو سب کچھ سچ سچ بتاؤ یا پھر ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دیئے جاؤ گے، بہتر یہی ہے کہ اپنی جان بھی بچاؤ اور اپنو ں کی عزت بھی۔ایک غدار کے خاندان کا جو حال ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔" ساحر نے کہا تو سلیم کے گلے میں جیسے کچھ اٹک گیا ہو۔چند لمحے وہ سوچتا رہا ۔

"ان دو کارڈز  کے لئے مجھے بھاری رقم ادا کی گئی تھی۔کارڈز ایشو کروانے کے لئے میرا ایک دوست ہے زبیر۔۔اس کا اپنا گیم کلب ہے۔۔اس نے کہا تھا۔" سلیم نے دھیمے لہجے میں کہا۔

"کون سا کلب ؟"

"پرنس گیم کلب۔۔" سلیم نے جواب دیا۔

"میں جانتا ہوں۔" جبران نے کہا۔

"زبیر کا نمبر بتاؤ۔" ساحر نے کہا تو سلیم نے اس کا نمبر بتایا۔

" اس کی زبیر سے بات کراؤ ــــــ اورتم ــــــ جو مرضی ہے بات کرولیکن یہ کنفرم کراؤ کہ یہ کام تمہیں زبیر نے ہی دیا تھا۔" ساحر نے پہلے جبران سے اور پھر سلیم سے مخاطب ہو کر کہا، جبران نے سائیڈ ٹیبل پر موجود فو ن کاسیٹ اٹھا کر نمبر ملایا اور ریسیور سلیم کے کانوں کے ساتھ لگا کر لاؤڈر کا بٹن پریس کیا۔

"یس ۔۔" دوسری طرف سے سخت آواز سنائی دی۔

"سلیم بات کر رہا ہوں۔حکومتی ایجنسیاں معاملات کی تحقیقات کر رہی

ہیں۔وہ لوگ بار بار مجھے تفتیش کے لئے بلاتے ہیں۔" زبیر نے پریشان لہجے میں کہا۔

"تمہیں کتنی با ر کہا ہے کہ فون پر ایسی باتیں مت کیا کرو۔کچھ نہیں ہوتا۔بس تم پرسکون رہو۔ویسے بھی اب یہ کام ختم ہونے والا ہے۔"زبیر نے جواب دیا۔

"اوکے۔۔تھینک یو۔۔" سلیم نے کہا تو دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی۔جبران فون سیٹ پکڑ کر پیچھے ہٹ گیا۔

"غداری کی سزا موت ہوتی ہے۔ہم اتنا کر سکتے ہیں کہ تمہارا خاندان  بدنا م نہ ہو۔" ساحر نے کہا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ جبران سمجھ گیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے ــــــ ــــــ

ساحر وہاں سے نکل کر دوبارہ سٹنگ روم میں پہنچا اور ریسیور اٹھا کر نمبر

ملایا۔

" لارڈ---"دوسری طرف سےکرخت آواز سنائی دی۔ یہ آواز سُن کر ساحر کو جیسے سکون میسر آیا ہو۔

"چیف ۔ہم نے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے، دو مشکوک لوگ سامنے آئے ہیں ، اب ہم ان کے پیچھے جانے والے ہیں۔" ساحر نے مودبانہ آواز میں بتایا۔

"اوکے۔کون ہیں وہ لوگ؟"--- چیف نے پوچھا۔

"پرنس کلب کا زبیر ان لوگوں کے بارےمیں جانتا ہے،اس سے پہلے ہم لوگ ــــــ ــــــ " ساحر نے اب تک ہونے والے واقعات کی مختصر روئیداد سنائی۔

"گڈ۔۔کام کی رفتار زیادہ کرو۔۔وقت بہت کم ہے۔" دوسری طرف سے جواب آیا اور کال بند ہو گئی۔

 ساحر اٹھا اور باہر نکل آیا۔ لان میں ثانیہ ، کبیر اور جبران ــــــ تینوں موجود تھے۔

"چیف سےبات ہو چکی ہے۔اب ہمارا ٹارگٹ پرنس کلب کا زبیر ہے۔اس سے پتہ چلے گا کہ اصل میں اس سب کے پیچھے کون ہے۔" ساحر نے کہا۔

"ویڈیو میں اور کوئی کلیو نہیں ملا تمہیں؟"--- ثانیہ نےپوچھا۔

"ملا ہے۔ایک اور شخص ــــــ جو لگاتار ملاقاتی بن کر وہاں جاتا رہا ہے ۔" ساحر نے کہا تو سب چونک پڑے۔

"کون ہے وہ؟" ---سب نے یک زبان ہوکر پوچھا۔

" لارڈ---" ساحر نے مسکرا کر جواب دیا تو سب اچھل پڑے۔

"تمہیں کیسے پتہ چلا؟"--- ثانیہ نے پوچھا۔

"مخصوص قدوقامت اور چال کی وجہ سے ــــــ چیف وہاں بلاناغہ جاتا رہا ہے۔" ساحر نے کہا۔

"اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کانفرنس کو خطرہ ہے ، یہ بات چیف بہت پہلے سے جانتا تھا۔اسی خطرے کے پیشِ نظر وہ وہاں نگرانی کر رہا تھا۔"ثانیہ نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔

"اگر نگرانی ہی کرنی تھی تو چیف ہماری ڈیوٹی بھی تو لگا سکتا تھا، خود نگرانی

کرنے کا کیا مطلب ہے؟"--- کبیر نے کہا۔

"یہ تو پھر چیف ہی بتا سکتا ہے کہ وہ خود کیوں نگرانی کر رہا تھا۔" جبران نے کہا۔

"معاملات بہت گہرے ہیں۔چیف کو یقیناََ کانفرنس کے حوالے سے کچھ رپورٹس ملی ہوں گی اور  وہ رپورٹس تصدیق شدہ نہیں ہو ں گی تو چیف خود وہاں جانا شروع ہو گیا ، معاملات کسی کروٹ بیٹھتے تو چیف ہمیں بھی شامل کرتا۔" ساحر نے کہا۔

"پھر بھی ایک سوال بچ ہی جاتا ہے۔اگر چیف روز وہاں جاتا رہا ہے تو مجرم کامیاب کیسے ہو گئے؟ کیا مجرم چیف سے زیادہ ہوشیار ہیں؟"--- ثانیہ نے کہا تو سب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ ثانیہ کی بات میں دم تھا لیکن اس کا جواب ــــــ کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔

 

 ❤

 

وہ سیاہ رنگ کا چست لباس پہنے ــــــ ہاتھ میں لارڈ کا نقاب پکڑے کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پرپاگل پن سے بھرپور مسکراہٹ تھی۔وہ اس وقت ایک کمرے کے سامنے تھا جس میں اندھے   شیشے کی اس کھڑکی کے ذریعے باہر سےتو اندر دیکھا جا سکتا تھا لیکن اندر موجود شخص باہر نہیں دیکھ سکتا تھا۔

شیشے کے اُس پار سٹریچر نما بستر  پربے حد ایک وجیہہ نوجوان لیٹا ہوا تھا ، بند آنکھوں اور دھیمے انداز میں سانس لیتے ہوئے وہ بہت معصوم لگ رہا تھا۔نوجوان لمبے تڑنگے اور مضبوط کسرتی جسم کا مالک تھا ۔شیشے کی دوسری طرف وہ شخص موجود تھا جس کے ہاتھ میں لارڈ کا ماسک تھا۔ جس کے قریب ہی ایک اور شخص موجود تھا جو کمپیوٹر کے سامنے کرسی پر موجود تھا۔اس کی نظریں مسلسل کمپیوٹر پر ٹکی ہوئی تھیں جیسے سبق کو رٹا لگانے والے طالبعلم کے کتاب کی ہر لائن پرٹکی ہوتی ہیں۔

"یہ مسلسل اسی حالت میں ہے؟"--- اس شخص نے کمپیوٹر آپریٹر سے پوچھا۔

"یس باس۔ابھی تک تو ایسے ہی ہے۔ویسے جسمانی طور پرتو بہت مضبوط نظر آتا ہے مگر میرا خیال ہے اس کا دماغ کافی کمزور ہے جو اتنا وقت لے رہا ہے۔" اس نے جواب دیا۔

"تمہیں اس کے دماغ کی طاقت کا انداز ہ نہیں۔اسے ٹرانس میں لانے کے لئے دواکی ٹرپل ڈوز دی گئی ہے۔" اس شخص نے مسکرا کر کہا تو کمپیوٹر آپریٹر نے چونک کر بے یقینی سے اس شخص کی طرف دیکھا تو اس شخص نے جواب میں بہت سخت نظروں سے اسے دیکھا۔

"تمہیں میری بات پر یقین نہیں؟"--- اس نے غراتے ہوئے کہا۔

"سوری باس---بات کچھ ایسی تھی کہ میں حیران ہو گیا۔آج تک ہم نے جسے بھی ٹرانس میں لیا ہے وہ زیادہ سے زیادہ ہاف ڈوز میں ہی ہتھیار ڈال دیتا ہے ، پہلی بار ایسا شخص دیکھا ہے جسے اتنی ڈوز دی کر ٹرانس میں لیا گیا ہے اور وہ ذہنی طور پر بالکل نارمل ہے۔" اس نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔

"لیکن ایسے ذہن کا کیا فائدہ جو سائیکو کے سامنے ٹِک نہیں پایا۔۔ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔اسے پتہ بھی نہیں چلے گا کہ اس کی وجہ سے میں نے اس ملک میں کیا طوفان برپا کر دیا ہے۔جب یہ ٹرانس سے نکلے گا   تو اس کے پاس صرف ایک راستہ بچے گا۔۔۔خود کشی یا پھانسی ۔۔۔ہاہاہاہاہا۔۔۔" یکدم ا س شخص کی ذہنی رو جیسے بہک گئی اور وہ پاگلوں کی طرح قہقہے لگانے لگا۔

وہ خود اپنے آپ کو سائیکو کا نام دے رہا تھا۔

"یس باس۔ایسا ہی ہو گا۔" دوسرے شخص نے فوری اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

"جیسے ہی اس کی حالت میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی آئے تو مجھے انفارم کرنا۔میں ذرا چہل قدمی کر کے آؤں۔" اس نے گلا پھاڑ کر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا اور واپس مڑ گیا۔

 کمپیوٹر آپریٹر اب بڑی حیرت سے دوسرے کمرے میں بیڈ پرموجود اس وجیہہ نوجوان کو دیکھ رہا تھا جو ہر مسئلہ سے عاری چین کی نیند---یا یوں کہیں کہ چین کی بے ہوشی کے مزے لُوٹ رہا تھا۔

"تم بہت ذہین ہو گے دوست لیکن تم پھنسے بہت برے ہو۔مجھے تمہارے لئے افسوس ہے۔" اس شخص نے شیشے کے پار دیکھتے ہوئے بڑبڑاتے ہوئے کہا لیکن ظاہر ہے وہ نوجوان کچھ سُن نہیں سکتا تھا۔

سائیکو تہہ خانے سے نکل کر اوپری حصے میں پہنچا ۔یہ روشن پیلس سے ملحقہ عمارت تھی۔ سائیکو تیزی سے درمیانی دیوار کی طرف بڑھا اور دیوار کے ساتھ رکھی گئی سیڑھی کی مدد سے دیوار کراس  کر  کے روشن پیلس میں داخل ہوا۔اس نے آنے جانے کے لئے دونوں طرف درختوں کے بیچ لمبی سیڑھیاں رکھی ہوئی تھیں ، کیونکہ روشن پیلس کی دیواروں کی اونچائی بہت زیادہ تھی۔ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہ کنٹرول روم میں پہنچا اور لارڈ کی کرسی پربیٹھ کر ایک بار گول گھوما اور تالی بجا کر ہنسنے لگا،اس نے سائیڈ پر پڑے فون کا ریسیو ر اٹھا کر نمبر ڈائل کیا۔

"یس---" دوسری طرف سے بھاری اور پروقار آواز سنائی دی۔

"سر پریزیڈنٹ ۔۔ لارڈ سپیکنگ۔۔" اس کے منہ سے لارڈ کا مخصوص لہجے نکلا۔

"یس لارڈ۔۔کوئی  تازہ خبر ــــــ ؟" ۔

"سر۔میری ٹیم مسلسل کام کر رہی ہے اور ہم جلدہی یہ کیس حل کر دیں گے۔اس وقت میرا آپ سے رابطہ کرنے کا کچھ اور مقصد ہے۔مجھے اطلاع ملی ہے کہ مجرم ٹاپ زون میں موجود لیبارٹری پر حملہ کرنے والے ہیں اور وہاں سے وہ فارمولا چرانا چاہتے ہیں۔" سائیکو نے لارڈ کے لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا۔

"اوہ۔۔یہ تو بہت بر ی خبر ہے۔میں ابھی وہاں ملٹری انٹیلی جنس کو تعینات کرنے کے آرڈرز دیتا ہوں۔" صدر صاحب نے کہا۔

"یس سر۔یہ بہت ضروری ہےلیکن میرے پاس ایک اور تجویز ہے۔میں چاہتا ہوں کہ وہ فارمولا میں اپنے پاس محفوظ رکھ لوں۔"

"فارمولا ہے کون سا؟" ---صدر صاحب نے پوچھا۔

"فارمولے کا کوڈ نیم ایم ایٹ ہےاور یہ براہِ راست آپ کے انڈر آتا ہے۔" سائیکو نے جواب دیا۔

"مائی گاڈ۔اس فارمولے کے بارے میں مجرموں تک کیسے اطلاع پہنچی ؟ یہ تونہایت ٹاپ سیکرٹ فارمولا ہے؟"--- صدر صاحب کےلہجے میں شدید پریشانی تھی اور سائیکو یہی پریشانی ان کے لہجے میں محسوس کرنا چاہتا تھا، اس کے ہونٹوں پرشرارت بھری مسکراہٹ تھی۔

"سر۔اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ وہ فارمولا میری نگرانی میں آجائے، جو مجرم اتنے سیکرٹ راز تک پہنچ سکتے ہیں وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔جب خطرہ ٹل جائے گا تو فارمولا واپس لیبارٹری بھیج دیا جائے گا۔"

"میں آپ سے تھوڑی دیر تک رابطہ کرتا ہوں۔"صدر صاحب نے کہا اور کال بند ہو گئی۔ سائیکو  کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہوا اور ہنسنے لگ گیا۔

"تم ضرور اپنا سب سے اہم فارمولا مجھے دو گے۔تمہارے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں۔ لارڈ سے نکالی گئی معلومات کے سامنے تو یہ فارمولا تو کچھ بھی نہیں مسٹر پریذیڈنٹ ۔یہ تو شروعات ہے۔" اس نے ہنستے ہنستے

کہا۔ اسی وقت فون کی گھنٹی بجی۔سائیکو نے جھٹ سے ریسیور اٹھایا۔

"لارڈ۔۔" اس نے لہجہ بدلتے ہوئے کہا۔

"مسٹر لارڈ۔۔وہ فارمولا آپ تک کیسے پہنچایا جائے؟" سائیکو کی توقع کے عین مطابق ــــــ صدر صاحب اسے فارمولا سونپنے پر تیار ہو چکے تھے۔

"سر میں خود لیبارٹری جا کر فارمولا لے آتا ہوں تا کہ کسی قسم کا رسک نہ رہے۔" سائیکو نے کہا۔

"اوکے۔خیال رکھنا ۔یہ ہمارے سب سے اہم رازوں میں سے ایک راز ہے۔" صدر صاحب نے ہدایت دیتے ہوئے کہا۔

"ڈونٹ وری سر۔میں اس فارمولے کی اپنی جان سے بھی زیادہ حفاظت کروں گا۔آپ لیبارٹری میں میرے متعلق ہدایات دے دیں۔کوڈ  بلیک فارمولا ہو گا۔" سائیکو نے اپنا دوسرا ہاتھ سینے پررکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا۔

"اوکے۔۔وش یو گڈ لگ۔۔" صدر صاحب نے کہا اور کال کٹ گئی۔

"وش یو گڈ لگ سر۔۔" اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔اس کا ذہن خیالوں میں گم ہو گیا تھا۔صد ر صاحب نے قدرے کھل کر بات کی تھی جس وجہ سے سائیکو ،لارڈ کی اہمیت کو سمجھ رہا تھا ، دوسری طرف ممکن تھا کہ صدر صاحب اصل لارڈ سے مزید کھل کر بات کرنے کے عادی ہوتے لیکن سائیکو اس معاملے کو کرید کر خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔

 اس نے لارڈ کے ذہن کو ٹرانس میں لا کر بہت کچھ حاصل کرلیا تھا ۔ اس نے لارڈ کے ذہن کو کھنگال کر یہ پتہ لگانے کی کوشش بھی کی تھی کہ کانفرنس والے دن جو کچھ ہوا ،اس متعلق اس کی رائے کیا ہے اور وہ کتنا ملوث ہے لیکن کوئی بھی قابلِ توجہ بات نہ جان سکا تو اس نے باقی معلومات سے فائد اٹھانے کا سوچا۔

اس کام کی شروعات اس نے اب  کردی تھی، قدم بہ قدم وہ اس کام میں آگے بڑھنے والا تھا۔ لارڈ کے ذہن کو ٹرانس میں لانے کے لئے اسے کافی محنت کرنی پڑی تھی۔پہلے اس نے لارڈ کو بھی عام طور پر انجیکٹ کی جانے والے مقدار کے برابر ہی ڈوز دی تھی لیکن لارڈ کا ذہن تھا یا کوئی ضدی بلا---سائیکو کو ڈوز بڑھانی پڑی---آخر کار تین گنا ڈوز پر اس کا کام بن گیا۔جتنا وہ لارڈ کو ٹرانس میں لا کر خوش تھا اتنا ہی وہ اس کی ذہنی طاقت کی وجہ سے خائف تھا، اسی وجہ سے اس نے ایک شخص کو خاص طور پر لارڈ کے کمرے کے سامنے نگرانی پر چھوڑا ہو ا تھا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ دوران مشن اسے کسی طرف سے کوئی دھچکا لگے۔ گرین سروس کے ممبر ساحر نے اس سے رابطہ بھی کیا تھا، سائیکو نے بطور ِ چیف اس سے مشن سے متعلق رپورٹ بھی لے لی تھی اور اسے کام کی رفتار بڑھانے کا کہہ دیا تھا۔

اس کا ذہن بہت عجیب تھا، وہ بلا مقصد تباہی مچانے کو بہت پسند کرتا تھا ، اس کے کسی عمل سے بھی ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے۔شاید ا سکا جواب وقت ہی تھا، مگر ایک بات تو طہ تھی کہ جس طرح سے وہ کام کر رہا تھا یہ اُس ملک کے لئے نیک شگون نہیں تھا ۔ المیہ یہ تھا کہ وہ ایسے شخص کا روپ دھار چکا تھا جسے ذاتی طور پر شاید کوئی بھی نہیں جانتا تھا،اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک کی بہت اہم پوسٹ پر براجمان تھا، جو اب سائیکو کے کنٹرول میں تھی۔ گرین سروس---جو آئے روز ملک کے خفیہ اداروں میں اہمیت پا رہے تھے، وہ بھی اس پاگل کے ہاتھ لگ چکے تھے ــــــ سائیکو جیسے چاہتا انہیں چلاتا۔ پاگل پن کا شکار ہونے کے باوجود، سائیکو بہت ذہانت سے سب کچھ کر رہا تھا، اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ گرین سروس کو اس پر کوئی شک ہو، اس لئے انہیں براہِ راست اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے سے کترا رہا تھا۔ انہیں مصروف رکھنے کے لئے وہ چاہتا تھا کہ ممبراب جس تفتیش پر نکلے ہیں، اسی میں کھوئے رہیں۔

"پاگل---سوچوں سے نکل ۔۔کہ یہ وقت ہے کام کا---" اس نے اپنے سر کی عقبی طرف خود ہی تھپڑ مارتے ہوئے کہااور جلدی سے اٹھا۔وہ جب سے لارڈ سے ٹکرایا تھا تب سے میک اپ میں ہی تھا۔ا ب تک اس کی قومیت سامنے نہیں آئی تھی مگر وہ مقامی زبان بہت روانی سے بول رہا تھا۔ تیزی سے چلتا ہوا لارڈ کی مخصوص کار تک پہنچا اور کار میں سوار ہو کر باہر نکل گیا۔ اس کا رخ ٹاپ زون کی طرف تھا اور چہرے پر شیطانی مسکراہٹ ۔

تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے وہ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ٹاپ زون لیبارٹری والے پہاڑی سلسلے میں پہنچ چکا تھا۔ لارڈ کے ذہن سے لیبارٹری سے متعلق وہ جتنی معلومات نکال سکا تھا ان کی بنیاد پر ہی وہ بنا کسی سے پوچھے وہاں پہنچ گیا تھا ، یہ اس کی ذہنی قابلیت کا ثبوت تھا۔ مخصوص رستوں سے ہوتا ہوا وہ ایک ایسے مقام پر جا پہنچا جہاں دو پہاڑوں کے درمیان گہری کھائی تھی۔ سائیکو نے چہرے پر نقاب پہنا اور کار کے مخصوص خانے سے ٹرانسمیٹر نکال کر فریکوئنسی سیٹ کی۔

"ہیلو۔۔ لارڈ۔۔چیف آف گرین سروس کالنگ ٹو ایس ایچ۔۔" اس نے سپیشل ٹرانسمیٹر پرکال کرتے ہوئے کہا۔

"یس ۔۔ایس ایچ اٹنڈنگ یو ۔۔۔کوڈ پلیز۔۔۔" دوسری طرف سے مشینی آواز سنائی دی۔

"بلیک فارمولا۔۔۔" سائیکو نے جوا ب دیا۔

"انتظار فرمائیں۔" دوسری طرف سے ہدایت کی گئی۔

اگرچہ لیبارٹری میں وائس چیکنگ سسٹم موجود تھا لیکن کیونکہ لارڈ کا لیبارٹری سے کوئی تعلق نہیں تھا اس وجہ سے اس کی آواز اس میں فیڈ نہیں کی گئی تھی،یہ بات سائیکو کے حق میں تھی۔کچھ دیر بعد گھاٹی کی دوسری طرف سے کوئی چیز اڑتی ہوئی کار کی طر ف بڑھی۔ ڈرائیونگ سیٹ والے دروازے کے پاس آ کر وہ رک گئی۔ یہ ایک ڈرون ہیلی کاپٹر تھا، جسے عام طور پر فضا سے نگرانی کرنے کے لئے استعمال کیا جا تا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک پیکٹ لٹکا ہوا تھا۔ سائیکو نے کار کا شیشہ نیچے کر کے ہاتھ باہر نکالا اور وہ پیکٹ تھام لیا۔ پیکٹ الگ ہوتے ہی ڈرون واپس مڑ گیا اور ساتھ ہی سائیکو نے بھی کار ریورس کرنا شروع کی ، کیونکہ یہاں سے کار کا رخ موڑنا ناممکن تھا ۔ یہ وَن وے ٹائپ رستہ تھا۔

 لیبارٹر ی سے دور آ کر اس نے چہرے سے نقاب اتار دیا ــــــ اس کے چہرے پر ہلکا سا غصہ تھا۔

"یہ لوگ اتنے بھی بے وقوف نہیں جتنا میں نے سمجھا تھا، باہر ہی فارمولا تھما دیا۔اگر لیبارٹری میں داخل ہونے دیتے تو میں وہاں کے انتظامات ہی دیکھ لیتا۔اگلی واردات میں کام آتے۔" ــــــ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور پھر یکدم ہنسنے لگ گیا ــــــ اس کے چہرے پر وہی پرانا پاگل پن چمکنے لگ گیا تھا۔

" چلو فارمولا تو ملا۔باقی سب کچھ بھی کر لے گا اپنا لارڈ ــــــ "

 اس نے نقاب کو تھپکی دیتے ہوئے کہااور سائیڈ مرر میں خود کو دیکھ کر جیسے اس کی ہنسی نکل گئی جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

 

❤ 


شہر میں جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی تھی، ویسے ہی یہاں غیر ملکی افراد کا آنا جانا لگ گیا۔ ساحلِ سمندر پر ہونے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں بھی عروج پر رہتی تھیں۔ جب غیرملکیوں کو محسوس ہوا کے اس شہر میں کاروبار کے وسیع مواقع ہیں تو  انہوں نےیہاں مختلف قسموں کے کاروبار کرنے شروع کر دیئے جن کے لئے وہ حکومت سے باقاعدہ منظوری لیتے تھے۔ سب سے زیادہ وہ لوگ جس کاروبار میں دلچسپی لیتے تھے وہ ہوٹلوں اور کلبوں کا تھا۔یہ کام ان کے لئے نسبتاََ آسان اور صاف ستھرا ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سطح پر ان کی پہچان کا باعث بھی

بنتا تھا۔

راسٹر بھی ایسے ہی کاروباری اشخاص میں سے تھا جس کے ہاتھ کسی بھی قسم کے مَیل سے بالکل پاک تھے ــــــ یا یوں کہا جائے کہ کسی بھی قسم کا مَیل وہ ہاتھوں پر ٹکنے نہیں دیتا تھا۔اس وجہ سے وہ کبھی قانون کے ہاتھ بھی نہیں لگا تھا۔ وہ بہت ہی نفیس  مگر سفاک طبیعت کا مالک تھا۔اس کے تعلقات بہت وسیع تھے ، جن کا احاطہ کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ظاہری طور پرتو وہ بس ایک کلب چلاتا تھا لیکن پسِ پردہ اس کا ایک پرائیویٹ گروپ تھا جسے وہ  اہم ہستیوں کے خلاف بلیک میلنگ سٹف جمع کرنے کے لئے استعمال کرتا تھا۔ اسی سٹف کی بنیادہ پر اس کے ہاتھ میلے نہیں ہوتے تھے۔اپنی تمام تر سفاکی اور سختی کے باوجود راسٹر کی ایک کمزوری تھی، یہ کمزوری یا مرض عموماََ مردوں کو ہو تا ہے۔راسٹر مخصوص قسم کی عورتوں کا شیدائی تھا اور اس کی بھرپور کوشش ہوتی تھی کہ اگر اس کے مطلب کی کوئی عورت نظر آ گئی ہے تو وہ اس کی دوستی سے محروم نہ رہ جائے۔ وہ جانتا تھا کہ اس کمزوری کی وجہ سے نقصان بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کی حالت اس بچے جیسی تھی جسے میٹھا

کھانے سے روکا جائے اور وہ بمشکل ہی کچھ دیر میٹھے سے دور رہ پائے۔

 راسٹر اپنے ساؤنڈ پروف کمرے میں موجود شراب پینے میں مصروف تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک رومانوی رسالہ تھا  جس میں وہ  اس قدر کھویا ہوا تھا کہ شراب والا گلاس منہ تک پہنچنے سے پہلے ہی اس نے الٹادیا۔ گلاس اس کے لباس پر خالی ہو گیا۔وہ کپڑے جھاڑتا ہوا تیزی سے اٹھا اور اپنی مادری زبان میں طوفانِ بدتمیزی اگلنے لگا۔اسی وقت انٹر کام کی گھنٹی بجی۔

"کیا ہے؟"--- اس نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا  ، جیسے انٹرکام پرموجود شخصیت نے اس کا لباس گندا کیا ہو۔

"بب۔۔باس۔۔آپ سے ملنے کوئی آیا ہے۔" دوسری طرف سے سہمی ہوئی نسوانی آواز آئی۔

"بھاڑ میں جائے جو بھی ملنے آیا ہے۔" اس نے کہا اور ریسیور پٹخ دیا۔ وہ تیزی سے واش روم کی طرف بڑھا اور اسی وقت دوبارہ انٹر کام کی بیل بج اٹھی۔

"الو کی پٹھی۔۔آج میرے ہاتھوں سے مرے گی۔" اس نے غصے سے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور جھپٹ کر ریسیو ر اٹھایا۔

"نکل جاؤ میرے کلب سے ورنہ جان سے مار دوں گا۔"اس نے گلا پھاڑتےہوئے کہا۔

"سوری۔۔شاید غلط جگہ کال ہو گئی۔" دوسری طرف سے ایک لوچ دار نسوانی آواز سنائی دی جسے سُن کر راسٹر ایک لمحے کے لئے سُن ہو گیا۔ اس نے پاگلوں کی طرح انٹر کام پرکال کی۔

"یس باس۔۔۔" دوسری طرف سے آواز سنائی دی۔

"ابھی کس نے مجھے کال کی تھی؟"--- راسٹر نے تیزی سے پوچھا۔

"وہی تو آپ تو ملنے آئے ہیں۔آپ کے مطلب کے مہمان ہیں اس وجہ سے میں نےفوری آپ کو کال کر دی۔" دوسری طرف سے آواز آئی ، وہ شاید اپنی اہمیت بنانے کے چکر میں تھی۔

"میرے مطلب کے ہیں سے تمہارا کیا مطلب ہے؟" راسٹر دوبارہ اس

 پرچڑھ دوڑا ــــــ وہ جیسا بھی تھا اپنے سٹاف کی نظروں میں تو باعزت

رہنا اس کا حق تھا۔

"مم۔مم۔میرا مطلب ہے کہ۔۔وہ۔۔" لڑکی کی آواز نکلنا بند ہوگئی۔

"اوقات میں رہ کر بات کیا کرو۔۔مہمانوں کو اوپر بھیجو۔" اس نے لڑکی کو جھڑکتے ہوئے کہا اوردوڑتا ہوا واش روم میں گھس گیا۔بڑے سے واش روم میں ایک طرف دیوار میں کپڑوں کی الماری بھی موجود تھی ، جس میں سے اس نے بہترین سوٹ نکالا اور جلدی سے ڈریس بدل کر باہر نکلا۔باہر نکلتے ہی وہ چونک گیا۔اس کے ارمانوں پر جیسے کسی نے بلڈوزر چلا دیا ہو۔

"کون ہو تم؟" ---اس نے براسا منہ بنا کر جھلائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

"میں آپ کی مہمان کا گاڈی باڈ ہوں سر۔" سامنے کرسی پرموجود نوجوان نے جھٹکے سے اٹھتے ہوئے ہکلا کر کر کہا۔

"کو ن سی مہمان ؟ اور یہ کیا بکواس ہے گاڈی باڈ کیا ہوتا ہے؟"

"سوری سر--- وہی مہمان جس کی وجہ سے مجھے آپ کے درشن ہو

گئے ہیں۔" اس نو جوان نے سہمے ہوئے انداز میں کہا۔

"دفع ہو جاؤ۔۔پتہ نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں منہ اٹھائے ہوئے۔" راسٹر کا موڈ اس نوجوان کو دیکھ کر غارت ہو چکا تھا۔ وہ تو اس امید میں تیزی سے باہر نکلا تھا کہ کوئی حور اس کا انتظار کر رہی ہے لیکن یہاں تو ایک عدد ــــــ گاڈی باڈ موجود تھا۔

"تھینک یو سر۔۔" اس نے نوجوان نے سر جھکا کر کہا اور کرسی پر ٹانگ پرٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا۔

"میں نے کہا دفع ہو جاؤ۔۔" اسے کرسی پر بیٹھتے دیکھ کر راسٹر کا پارہ چڑھ گیا اور وہ گلا پھاڑ کر اس پر چیخا۔

"اوکے ۔۔اوکے۔۔کیوں گلا پھاڑ رہے ہو۔جا رہا ہوں۔" نوجوان نے کہا اور کرسی سے اٹھ کر تیزی سے اس کی طرف بڑھا،ا س سے پہلے کہ راسٹر کچھ سمجھتا، نوجوان کا ہاتھ گھوما اور راسٹر چیخ کر فرش پرگرا۔ نوجوان نے اس کا کان پکڑ کر زور سے مروڑا تو راسٹر کا جسم تکلیف کی وجہ سے اکٹھا ہو گیا، راسٹر کی لات گھوم کر اس نوجوان کی پشت کی طرف بڑھی جسے نوجوان نے رستے میں ہی پکڑ لیا اور راسٹر کی لات گھماکر وہ راسٹر پر گرا۔تڑاخ کی آواز کے ساتھ راسٹر کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔راسٹر زمین پر ادھر ادھر سر مارنے لگا اور چیخنے لگا۔نوجوان نے اس کی دوسری ٹانگ پکڑ کر موڑی اور گرنے کی تیاری کی۔

"مت توڑو پلیز۔۔کیا چاہتے ہو؟" راسڑ کے منہ سے بمشکل یہ الفاظ برآمد ہوئے۔

"شارک سے جو ڈائنامائٹ تم نے خریدا تھا وہ کس کے لئے تھا؟" نوجوان نے غراتے  ہوئے پوچھا۔ وہ فاکس تھا۔

"کون شارک اور کیسا ڈائنامائٹ؟"--- راسٹر کے منہ سے بے اختیار نکلا اور فاکس نے اس کی لات چھوڑ دی۔راسٹر نے اس عمل پرہ فاکس کو حیرت بھری نظروں سے دیکھا۔ فاکس تیزی سے اس کے بائیں بازو کے پاس پہنچا اور بازو کو پکڑ کر مخالف سمت میں جھٹکا دیا۔جھٹکے کی تکلیف سے راسٹر کی آنکھیں ابل آئیں۔

"سوری۔۔یہ تو ٹوٹا ہی نہیں۔۔مفت میں تمہیں تکلیف ہوئی۔۔میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں۔" فاکس نے کہا، اس نے جان بوجھ کر پہلی بار بازو نہیں توڑا تھا۔

"رکو۔۔رکو۔۔میں بتا تا ہوں۔۔پانی پلاؤ۔۔"اس نے ہانپتے ہوئے کہا۔

"پہلے جواب ــــــ پھر پانی۔جلدی۔میرے پاس وقت کم ہے۔" فاکس نے سخت لہجے میں کہا۔

"وہ میں نے سائیکو کے آدمیوں کو بیچا تھا۔" راسٹر نے کہا تو فاکس چونک پڑا۔

"یہ کون ہے؟ پہلے تو کبھی نام نہیں سُنا؟" ---اس نے حیرت بھرے لہجے میں کہا مگر وہ راسٹر کے لہجے میں جھلکی سچائی کو بھی پہچا ن گیا تھا۔

"وہ اپنے آپ کو اس نام سے ہی بلاتا ہے۔وہ میک اپ میں ہی رہتا ہے اور پاگلوں جیسی حرکتیں کرتا ہے۔میں اس کا اصل نام نہیں جانتا ــــــ اب تو پانی پلا دو۔" راسٹر نے کہاتو فاکس اٹھ کر کونے میں موجود فریج کی طرف بڑھا۔

"بالکل بھی مت سوچنا۔میری نظر تم پر ہی ہے۔" فاکس جو کن انکھیوں سے راسٹر کو میزکی طرف کھسکتے ہوئے دیکھا رہا تھا، سختی سے بولا تو راسٹر رک گیا۔

"سائیکو کہاں رہتا ہے؟"---فاکس نے پانی کی بوتل پکڑ کر مڑتے ہوئے پوچھا۔

"میں نہیں جانتا۔میں نے اس کے آدمیوں کو پام کالونی میں کوٹھی نمبر گیارہ لے کر دی تھی مگر میں کبھی وہاں گیا نہیں۔" راسٹر نے فاکس کے ہاتھ سے بوتل پکڑتے ہوئے کہا۔

"سائیکو اور اس کے آدمیوں کے حلئے، قدوقامت اور کوئی خاص نشانی بتاؤ۔" فاکس نے کہا۔

"خاص نشانی تو میں نے تمہیں بتا دی،سائیکو پاگلوں جیسی حرکتیں کرتا ہے، قدوقامت تمہارے جتنا ہی ہے اور چہرہ وہ بدلتا رہتا ہے۔" راسٹر نے کہا اور ساتھ سائیکو کے آدمیوں کے حلئے اور قدوقامت بتائے۔

"تم نے اس لڑکی کو مجھ تک پہنچنے کے لئے استعمال کیا تھا؟" راسٹر نے پوچھا۔

"ہاں۔میں تمہاری ذہنیت جانتا تھا، اس لئے ساتھ ایک شکاری لے آیا،

جب تمہارے کمرے میں پہنچے تو تم واش روم میں تھے، میں نے اس

لڑکی کو فوری واپس بھجوایا اور کمرے کو لاک کر کے تمہارے انتظار میں سوکھنے لگا---تمہارے جرم کی سزا پرسکون نیند ہے۔بائی۔"

 فاکس نے ریوالور نکالتے ہوئے کہا اور ٹھائیں کی آواز کے ساتھ راسٹر کا قصہ تمام ہو گیا۔

"سائیکو۔۔عجیب نام ہے۔۔شخص بھی عجیب ہی ہو گا۔"فاکس مختلف چیزوں سے اپنی انگلیوں کے نشان مٹاتے ہوئے بڑ بڑایا۔

اس کام سے فارغ ہو کر وہ وہاں سے نکلا اور سیدھا پارکنگ میں پہنچا۔ کار میں سوار ہو کر وہ پام کالونی کی طرف روانہ ہو گیا۔چیف نے جب سے اس کے ذمے ڈیوٹی لگائی تھی تب سے دوبارہ اس سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ فاکس خود بھی تب تک چیف سے رابطہ نہیں کرنا چاہتا تھا جب تک وہ چیف کے فرمان کے مطابق مجرموں تک پہنچ نہ جاتا، اس وجہ سے اس نے چیف کو ساتھ ساتھ رپورٹ کرنے کا ارادہ کینسل کر دیا تھا۔

اکثر کاموں میں وہ چیف کے ساتھ ہوتا تھا ، یہ شاید چیف کا ہی اثر تھا کہ فاکس کے کام کرنے کی رفتار بڑھتی جا رہی تھی، وہ وقت ضائع کیے بغیر ٹارگٹ کے پیچھے لگا رہتا تھا۔ چیف سے وہ بہت کچھ سیکھتا تھا، چیف کا اس کے ساتھ باس اور ماتحت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مربیٰ کا بھی تھا۔ غیر محسوس انداز میں چیف اس کی ہر کام میں رہنمائی کرتا تھا جس سے فاکس کی صلاحیتیں خو ب چمک رہی تھیں۔فاکســــــ یہ نام بھی اسے چیف نے ہی دیا تھا ــــــ کیوں دیا تھا، یہ خود فاکس بھی نہیں جانتا تھا۔

وہ تیزی سے کار چلاتا ہوا پام کالونی پہنچا اور مطلوبہ کوٹھی دیکھنے لگا۔ چند منٹوں میں وہ مطلوبہ کوٹھی کے سامنے تھا۔ا س نے کار ملحقہ سڑک پر موڑی اور کوٹھی کی عقبی سمت پہنچ گیا۔کار کو ایک سائیڈ پر روک کر اس نے اطراف کا جائزہ لیا۔ کوٹھی کی چاردیواری اتنی بلند نہیں تھی، وہ آسانی سے جمپ کر کے اندر داخل ہو سکتا تھا۔ اس نے ریوالور پر سائیلنسر فٹ کیا اور کار کو لاک کر کے وہ عمارت کی دیوار کے پاس رکا۔ ادھراُدھر کا جائزہ لے کر اس نے جمپ لیا اور دیوار پرپہنچ کر فوری دوسری طرف کود گیا۔ اس کے کودنے سے ہلکا سادھماکا ہوا، فاکس فوری اس جگہ سے ہٹ کر باڑ کے پیچھے پہنچ گیا۔ عمارت میں روشنیاں جل رہی تھیں جس کا مطلب تھا کہ عمارت آباد ہے ۔ جب کافی دیر اس طرف کوئی نہ آیا تو فاکس باڑ کے ساتھ ساتھ جھکے انداز میں آگے بڑھنے

لگا۔ابھی وہ تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ بندوق کی نال اس پرتن گئی۔

"ہینڈز اپ۔۔" ایک کرخت آواز سنائی دی تو فاکس نے طویل سانس لیتے ہوئے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔

"کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو؟" سامنے کھڑے غیر ملکی نے سخت لہجے میں پوچھا۔

"میری مرغی گم ہو گئی ہے۔وہ ڈھونڈ رہا تھا۔" فاکس نے برجستہ کہا تو غیر ملکی نے گھور کر اسے دیکھا۔

"چلو اندر۔۔تمہیں مرغی دوں۔۔بلکہ انڈے بھی لیتے جانا۔" اس شخص نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

"تم انڈے دیتے ہو؟" فاکس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

"بکواس مت کرو۔۔" اس شخص نے جھینپتے ہوئے کہا۔

"مجھے شروع سے شک تھا کہ میری مرغی کہیں ااور انڈے دیتی ہے۔۔چلو ۔۔آج دودھ کا دودھ اور انڈے کا انڈہ ہو ہی جائے۔" فاکس نے آگے بڑھتے ہوئے کہا، گن بردار نے الجھے ہوئے انداز میں اس کیطرف دیکھا جیسے اس کی دماغی حالت پرشک کر رہا ہو لیکن فاکس تب تک ہاتھ اٹھائے اکیلا ہی عمارت کی طرف جا رہا تھا جب کہ گن بردار ادھر ہی کھڑا تھا۔

"ارے رکو۔۔" گن برادارنے چیخ کر کہا۔

"جلدی آؤ۔۔میرے پاس وقت نہیں۔" فاکس نے بغیر مڑے کہا۔ گن بردار دوڑ کر اس کے عقب میں پہنچا اور تیزی سے اس پر گن تان لی اور ساتھ ساتھ چلنے لگا۔

"تمہیں بہت جلدی ہے۔" گن بردار نے جلے ہوئے لہجے میں کہا۔

"بے وفا مرغی کو جو پکڑنا ہے۔" فاکس نے جواب دیا تو گن بردار برے برے منہ بنانے لگا۔

 

 چوتھی قسط کے لئے

Click Here


پی ڈی ایف میں مکمل ناول حاصل کرنے کے لئے 250 روپے ایزی پیسہ کر کے واٹس ایپ پر رابطہ کیجئے۔

03435941383 (واٹس ایپ+ ایزی پیسہ)


Post a Comment

0 Comments