گرین سیریز کا ناول نمبر 10 جلد ہی پبلش کیا جائے گا۔

#

Psycho Episode 2 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

 

Psycho Episode 2 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

INVESTIGATING THE MATTER:SAHIR AND SANIA

ناول کے تمام کردار، مقامات، واقعات فرضی ہیں اور مصنف کی اپنی تخلیق ہیں۔ جن میں کسی بھی قسم کی کلی یا جزوی مطابقت محض اتفاقیہ امر ہو گا جس کا مصنف ذمہ دار نہیں ۔

ناول کے کسی بھی حصے کو کاپی کرنا، نقل کرنا یا چوری کرنا قانوناََ  اور اخلاقی جرم ہے ۔ جملہ حقوق  اللہ عزوجل اور اس کے پیاروں کے بعد بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔

(تبصرہ/رائے کے اظہار کے لئے  لنکس)

www.facebook.com/groups/ibnetalib

 

 

دوسری قسط

ساحر اور ثانیہ کار میں سوار قومی پبلک سیکرٹریٹ کی طرف جا رہے تھے۔ساحر کار چلا رہا تھا جب کہ ثانیہ موبائل پرتازہ خبریں  سننے میں مصروف تھی۔ جب خبروں کا سلسلہ رکا تو اس نے موبائل ہینڈ بیگ میں ڈال دیا۔

"اگر وزیرِاعظم صاحب نے اس کانفرنس میں شامل ہونا تھا تو سکیورٹی اتنی ناقص کیسے ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص بم لے کر اندر چلا جائے؟"--  ثانیہ نے کہا۔

"ایسا اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کوئی اندر کا اہم شخص  مجرموں سے مل جائے۔ دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بم وہاں پہلے سے ہی پہنچا دیا گیا ہو ـــــ  تیسری صورت یہ کہ حفاظتی نظام ناکارہ کر دیا ہو گا ـــــ لیکن اس صورت میں  بھی کوئی اندرونی شخص ملا ہوا ضرو ر ہو گا ۔"

"انٹیلی جنس میں کام کرتے ہوئے ہمیں کبھی بھی ریڈ اتھارٹی کارڈز نہیں ملے۔" ثانیہ مسکرائی۔

"تب پی ایم صاحب اور ساتھ نو غیرملکی نمائندے اغواء بھی تو نہیں ہوئے ہوں گے۔" ساحر نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"یہ بھی درست ہےمگر میرے ذہن میں ایک اور بات بھی آتی ہے ــــــ  صدرِ مملکت لارڈ پر مہربان نظر آتے ہیں۔" ثانیہ نے کہا۔

"تمہیں صرف نظر آتے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ وہ لارڈ پر مہربان ہیں۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے، جب کوئی ایمانداری سے کام کرنا چاہتا ہو اور اس میں صلاحیت بھی ہو تو فِیور مل جانا اچھا ہے۔ اس سے کام میں نکھار آتا ہے، ورنہ رکاوٹیں کھڑی کرنے والے سانس نہیں لینے دیتے۔"  ساحرنے  U ٹرن سےکار موڑتے ہوئے جواب دیا۔

"اب تفتیش کہاں سے شروع ہو گی؟"

"پارکنگ سے ــــــ " ساحر نے جواب دیا تو ثانیہ چونک گئی۔

"کوئی خاص وجہ؟"

"چیف نے جو ویڈیو بھیجی تھی اس میں نظر آنے والے کچھ لوگ اغواء ہو چکے ہیں تو  کچھ پولیس کے ہتھے چڑھے ہوں گے پھر بھی چشم دید گواہ تو ملے گا نہیں۔ بم سے اوپری حصہ تباہ کیا گیا ہے، اگر یہ اندازہ ٹھیک ہے کہ بم پہلے ہی فٹ کیا گیا تھا تو آمدورفت پہلے سے اس عمارت میں تھی، اس کے لئے پارکنگ سے بات شروع کرنا بہتر ہے۔اس کے بعد ہم سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کریں گے اور ساتھ ساتھ تفتیشی کام بھی جاری رہے گا۔" ساحر نے کہا تو ثانیہ نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔

باتیں کرتے کرتے وہ تھوڑی دیر میں اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ گاڑی پارک کرنےکے بعد وہ عمارت میں پہنچے اور وہاں سے سیدھے کمپیوٹر روم۔جہاں انہوں نے چند روز پہلے کی سی سی ٹی وی ویڈیو نکلوا کر چلوائی۔ساحر نے اس کمرے میں موجود سٹاف کو باہر نکال دیا اور ساتھ ہی  سب سے پہلے پارکنگ میں موجود گارڈ کو بلوایا۔

"سلام صاحب۔۔۔"گارڈ نے آتے ہی ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا۔

"وعلیکم سلام چچا ــــــ کیسے ہیں آپ؟"--- ساحر نے نرمی سے بات کا آغاز کرتے ہوئے اس گارڈ کا حال پوچھا۔

" ٹھیک ہوں بیٹا۔اللہ تمہیں سلامت رکھے۔" گارڈ نے اسے دعا دیتے ہوئے کہا، وہ ساحر کے نرم لہجے اور حال پوچھنے سے متاثر لگ رہا تھا۔

"چچا ہمیں آپ سے کچھ باتیں پوچھنی ہیں اگر آپ پرسکون محسوس کریں تو ــــــ " ساحر نے کہا۔

وہ چاہتا تو سخت مزاج سے بھی پوچھ گچھ کر سکتا تھا لیکن ایک تو سامنے والے کی عمر کافی تھی اور پھر جو بات نرمی اور خوش اسلوبی سے پتہ چل سکتی تھی اس کے لئے سختی کی کیا ضرورت تھی۔

"پوچھیں صاحب۔۔جو مرضی پوچھیں۔" گارڈ کو شاید کسی نے ساحر کی اتھارٹی کا بتا دیا تھا اور پھر ساحر کا اس کے ساتھ رویہ بھی بہت اچھا تھا۔

"آپ کب سے یہاں ڈیوٹی کر رہے ہیں؟"

" سات سال سے ۔"

"آپ پھر یہاں آنے جانے  کافی لوگوں کو پہچانتے بھی ہوں گے؟"

"جنا ب جو لوگ اکثر آتے ہیں انہیں تو چہروں سے پہچانتا ہوں لیکن کبھی کبھار والوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کون ہیں۔"

"آج جو کانفرنس تھی اس کی تیاری کے لئے نئےلوگ آئے تھے یا کہ پرانا سٹاف ہی تھا؟"

"زیادہ تر تو پرانے لوگ ہی تھے لیکن کچھ نئے لوگ بھی شامل تھے۔ "

"ان نئے لوگوں کو ہائر کس نے کیا تھا؟"

"جناب اس بات کا تو نہیں پتہ مگر سب کے گلوں میں کارڈز لٹکے ہوتے تھے ، جسکا مطلب تھا کہ انہیں اندر آنے کی باقاعدہ  اجازت دی گئی ہے۔"

"ایسے کارڈز کہاں سے ملتے ہیں؟"

"سلیم صاحب ہیں جی انچارج ــــــ وہی کارڈز جاری کرتے ہیں۔"

"صرف سلیم صاحب ہی وہ کارڈز جاری کرتے ہیں یا کوئی اور بھی جاری کر سکتا ہے؟" ساحر نے چونک کر پوچھا۔

"میں نے تو کافی عرصے سے یہی دیکھا ہے کہ سلیم صاحب ہی کارڈ جاری

کرتے ہیں اور اگر کسی سے کارڈ واپس لیا جائے تو وہ بھی ان کے پاس ہی جمع ہوتا ہے۔"

"اس کے علاوہ کوئی ایسی بات جو ان دنوں آپ کو عجیب لگی ہو یاروٹین سے ہٹ کر لگی ہو؟" ــــــ ساحر نے پوچھاتو گارڈ چند لمحوں کےلئے سوچ میں ڈوب گیا۔

"نہیں صاحب۔سب نارمل ہی تھا۔"

"اوکے چچا ۔۔بہت شکریہ۔۔آپ جا سکتے ہیں۔" ساحر نے کہا تو گارڈ سلام کر کے باہر نکل گیا۔

"اب ــــــــــــ ؟" ثانیہ نے کہا۔

"سلیم صاحب ۔۔جو کارڈز ایشو کرتے ہیں۔" ساحر نے نظریں سکرین پرگاڑتے ہوئے کہا جس میں سی سی ٹی وی کی ویڈیو چل رہی تھی۔ ویڈیو پارکنگ ایریا کی تھی۔ ساحر پتہ نہیں کیوں اپنی توجہ پارکنگ ایریا پر مرکوز کئے ہوئے تھا۔ثانیہ ،ساحر کی بات سن کر دروازے کی طرف بڑھ گئی اور باہر کسی کو سلیم صاحب کو بلانے کا کہہ کر پلٹ آئی۔

"سلیم سے کارڈ کے بارے ــــــــــــ ؟"

"ہاں ۔۔لیکن ڈائریکٹ نہیں۔"- ساحر نے نظریں سکرین سے ہٹائے بغیر کہا، دروازے پر دستک سن کر ثانیہ نے کَم اِن کی آواز لگائی تو کمرے میں ایک چھوٹے قد کا سانولا سا شخص داخل ہوا۔ اس نے عمدہ سوٹ پہن رکھا تھا ، اور بڑی متانت سے چلتا ہوا ساحر کے سامنے موجود کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔

"جی جناب ۔میرا نام سلیم ہے۔۔آپ نے مجھے بلایا؟" ---اس نے ساحر سے استفسار کیا۔

"آ پ کی یہاں کیا ڈیوٹی ہے؟" --ساحر نے اس کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے پوچھا۔

"سر میری دو ڈیوٹیاں ہیں۔ ایک ملاقاتیوں کے سسٹم کو مانیٹر کرنا اور دوسرا یہاں آنے والے لوگوں کا ریکارڈ رکھنا۔" اس نے جواب دیا۔

"آپ کے تحت کتنے لوگ کام کرتے ہیں؟"

"دس افراد ہیں۔"

"آپ صرف مانیٹر کرتے ہیں یا ذاتی طور پر کسی کام میں حصہ بھی لیتے ہیں۔جیسے ملاقاتیوں سے ملنا، ان کا چھوٹا موٹا انٹرویو یا رائے لینا" ۔

"نہیں سر۔مجھے ملاقاتیوں سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔" اس نے فوری جواب دیا۔

"تو پھر آپ لوگوں کا ریکارڈ کیسے رکھتے ہیں؟"

"اس کےلئے یہاں ایک آئی ڈی کارڈ سسٹم ہے۔ ہر ملاقاتی کو  کارڈ دیا جاتا ہے جو وہ جاتے ہوئے گیٹ پر واپس کرتا ہے اور وہی کارڈ ہم تک پہنچ جاتا ہے۔"

"اس کارڈ میں ایسی کیا خوبی ہے؟ میرا مطلب ہے کہ کوئی بھی اس کی نقل بنا کر گلے میں ڈال کر اس عمارت میں گھس آئے تو پھر؟"--- ساحر کے چہرے پر لاعلمی کے بادل گھنے ہو چکے تھے---سلیم اس کی لاعلمی پر مسکرایا۔

"جناب ایسا ممکن نہیں۔ہر کارڈ میں کمپیوٹر رائزڈ چپ لگی ہوتی ہے اور ہر کارڈ کا ایک مخصوص نمبر ہوتا ہے۔جب تک ہم کارڈ ایشو نہ کریں                     مرکزی دروازے سے انٹری ناممکن ہوتی ہے۔" سلیم نے ساحر کے علم میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔

"آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے کے کس کو کارڈ ایشو کرنا اور کس کو نہیں؟"

"ہمیں روزانہ آفس سے لوگوں کا بائیو ڈیٹا مل جاتا ہے جنہوں نے اگلے دن یہاں وزٹ کرنا ہوتا ہے ، ہم ایک دن پہلے ہی کارڈز تیار کر کے لاکر میں رکھ دیتے ہیں۔ دوسرے دن وہی کارڈز استعمال کئے جاتے ہیں۔"

"کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی ملاقاتی اپنا وزیٹر کارڈ واپس کرنا بھول گیا ہو اور دوسرے یا تیسرے دن وہ کارڈ واپس دینے آیا ہو، یا کبھی واپس آیا ہی نہ ہو؟"

"کارڈ کی واپسی کے بغیر گیٹ سے باہر نہیں جا سکتے تو کسی کا کارڈ لے کر چاردیواری سے باہر جانا ممکن نہیں"۔سلیم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

" پچھلے ہفتے سے لے کر آج تک---کوئی ایسا شخص جس کے لئے سپیشل انٹری کارڈ بنوایا گیا ہے۔یا کوئی اضافی شخص اس کانفرنس کی تیاری کے

حوالے سے ہنگامی طور پر یہاں آیا ہو---یا کسی کا اچانک سے وزیٹر کارڈ بنانا پڑا ہو؟"

" نہیں ۔ایسا کبھی نہیں ہوا۔" سلیم نے جواب دیا۔

" اوکے۔ایک آخری سوال۔ایک دن میں زیادہ سے زیادہ کتنے وزیٹر آتے ہیں؟"

"ہمیں سو کارڈز ایشو کرنے کی اجازت ہے لیکن ان دنوں وزیٹر ز یا باقی انتظامی عملے کی تعداد نوے سے اوپر نہیں گئی۔"

"دوسرے لفظوں میں نوے سے اوپر کوئی کارڈ ایشو نہیں ہوا؟"

"جی بالکل۔آپ ہمارے کمپیوٹر چیک کر سکتے ہیں۔"

"بہت شکریہ سلیم صاحب۔آپ ذرا سکیورٹی ہیڈ کو بھیج دیجئے گا۔" ساحر نے مسکرا کر کہا تو سلیم کرسی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

"کیا ہوا؟---لگتا ہے کارڈز ایشو ہونے میں کوئی مسئلہ ہے؟"--- ثانیہ نے سلیم کے باہر نکلتے ہی کہا۔

"ہاں---" ساحر نے مختصر سا جواب دیا۔

"کیا مسئلہ ہے؟"--- ثانیہ نے پر اشتیاق لہجے میں پوچھا۔

"بگھی میں جہاں گھوڑے بنانے تھے وہاں دولہا کی تصویر لگا دی ہے۔" ساحر نے کہا تو ثانیہ کا منہ کھل گیا۔

"بگھی ــــــ گھوڑے ــــــ دولہا ــــــ میں نے کیا پوچھا اور تم کی راگ الاپ رہے ہو۔؟" اس نے حیرت بھرے انداز میں کہا۔

"شادی کے کارڈ میں مسئلہ ہے ۔غلط بن گیا ہے۔ویسے ہے تو ٹھیک ــــــ  دولہے کی جگہ بھی یہی بنتی ہے۔بگھی کے آگے جُتہ ہوا ــــــ ساری عمر بیگم اس پر سوار رہے۔" ساحر نے سکرین سے نظریں ہٹا کرچھت پر گاڑتے ہوئے کہا۔

"تم اچھے خاصے سنجیدہ تھے ۔یکدم تمہارا دماغ کیوں گھوم جاتا ہے؟"-ثانیہ نے چڑتے ہوئے کہا۔

"دولہے کے نام کی جگہ گھوڑا---اور گھوڑے کی تصویر کی جگہ دولہے

کی تصویر لگ جائے  تب بھی ایک مستقبل کے دولہے کا دماغ خراب نہ

ہو۔کیااسے جمہوریت کہتے ہیں؟"-  ساحر نے دیدے پھاڑگھمائے

لیکن اس سے پہلے کے ثانیہ جواب دیتی،سکیورٹی ہیڈ اندر داخل ہواتو ثانیہ نے اپنا کھلا ہوا منہ بند کر لیا ۔

"یس سر۔۔"سکیورٹی ہیڈ نے باقاعدہ سلیوٹ کرتے ہوئے پوچھا۔

"کچھ نہیں یار۔بیٹھو آرام سے ــــــ " ساحر نے لاپرواہی سے کہا تو سکیورٹی ہیڈ کی آنکھیں سرچ لائٹ کی طرح گھوم گئیں۔وہ شاید ساحر کا کچھ اور ہی خاکہ لے کر آیا تھا لیکن ساحر نے آتے ہی اسے بڑی بے تکلفی سے بلایا تو بہت حیران ہوا۔

"بیٹھ بھی جاؤ۔یا کھڑے رہنے کا شوق ہے؟" ــــــ ساحر نے اسے ساکت وجامد کھڑے دیکھا تو کہا، وہ شخص جلدی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔

"کیا نام ہے تمہارا؟" ــــــ ساحر نے بے تکلفی سے پوچھا۔

"گل جان" ــــــ اس نے جواب دیا۔

"پھول جان---تمہاری رینج کہاں تک ہے؟"--- ساحر نے پوچھا۔

"سر۔گل جان۔پھول جان نہیں۔صرف ہمارا بیوی ہماری رینج سے باہر ہے---باقی سب ہمارا رینج میں ہے۔" ---گل خان نے جواب دیا تو

ساحر اور ثانیہ کا کان پھاڑ قہقہہ بلند ہوا۔

"گل کا مطلب پھول ہی ہوتا ہے پھول جان۔۔۔" ساحر نے ہنستے ہوئے کہا۔

"نہیں سر۔ہم مطلب والا لوگ نہیں ہیں۔جو اصل ہے بس وہی اصل ہے۔" گل جان نے کہا۔

"بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔اچھا گل جان،آج کے سانحہ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟" ساحر نے یکدم اپنے مطلب کی طرف پلٹتے ہوئے کہا۔

"سر۔آج کامسئلہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔آج تک یہاں پر ہماری مرضی کے خلاف کوئی بھی داخل نہیں ہوالیکن آج اتنا بڑا مسئلہ بن گیا ہے کہ ہمیں تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا، الٹا جو بھی تفتیش کرنے آتا ہے وہ یہ دھمکی دیتا ہے کہ ہمیں جیل میں سڑائے گا۔"

"پھر بھی تم نے کچھ تو سوچا ہو گا کہ ایسا کیسے ہو گیا ؟" ---ساحر نے کریدتے ہوئے پوچھا۔

"سر۔۔یہاں ہر کوئی اپنی ڈیوٹی پوری محنت سے کرتا ہے، پھر میں کیا کہوں کے کیسے ہو گیا؟"

"اگر ہر کوئی اپنی ڈیوٹی اچھے سے کر رہا ہوتا تو ایسا ہرگز نہ ہوتا---اس کا مطلب ہے کہ تم سکیورٹی ہیڈ بننے کے لائق نہیں ہو۔تمہیں انسان کو پرکھنا نہیں آتا۔" ساحر کا لہجہ سخت ہو گیا لیکن گل خان پر اس کا الٹا اثر ہوا۔ساحر گل خان کے ساتھ انداز بدل بدل کر بات کر رہا تھا ۔ گل خان کی آنکھوں میں الجھن اور پیشانی پر سوچ میں ڈوبنے کی وجہ سے شکنیں ابھر آئیں۔

"سر۔ایک حصہ ہے جس میں اگر گڑبڑ ہوجائے تو کوئی بھی شخص بڑی آسانی سے یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔"-- گل خان نے الجھے ہوئے انداز میں کہا جیسے وہ کسی پر الزام نہ لگانا چاہتا ہو۔

"سلیم صاحب کا ڈیپارٹمنٹ---" ساحر نے کہا تو گل خان اچھل پڑا۔

"آپ کو کیسے پتہ چلا؟ابھی تو مجھے بس یہ خیال آیا تھا۔"--- اس نے حیرانی سے پوچھا۔

"شکریہ گل خان۔اس بات کا ذکر کسی سے مت کرنا۔مجھے یقین ہے کہ تم میری بات پر عمل کرو گے۔تم سے ملاقات کرکےاچھا لگا۔بائی۔" ساحر نے جواب دیئے بغیر کرسی سکرین کی طرف موڑ لی--گل خان حیران و پریشان نظروں کے ساتھ رخصت ہو گیا۔

"اب واپسی---سلیم صاحب کی رہائش گاہ پر باقی تفتیش ہو گی۔" ساحر نے اٹھتے ہوئے کہا۔

"اور سی سی ٹی وی کی فوٹیج کی کاپی جو منگوائی تھی؟"--- ثانیہ نے اسے یاد دلایا۔

"وہ ساتھ لے لو،اسے دیکھنا بھی ضروری ہے۔" ساحر نے کہا تو ثانیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔

وہ اس بورنگ تفتیشی سیشن سے اکتا گئی تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ ملک کی عزت کا سوال ہے، یہ سب کرنا بہت ضروری تھا اور اسے ساحر کی صلاحیتیوں پر یقین  سا ہو گیا تھا کہ ساحر جو کرے گا وہ سود مند ہی ثابت ہو گا۔

 

 ❤


لارڈ  کی کال آئی تو فاکس اپنی رہائش گاہ پر موجود تھا---چیف کی طرف سے ای میل کی گئی ویڈیو دیکھنے کے بعد اس نے لباس بدلا اور ہلکا پھلکا میک اپ کر کے اپنی کار میں سوار ہو کر باہر نکل آیا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ ڈائنامائٹ کے سپلائر کو تلاش کر کے مجرموں تک پہنچا جا سکتا ہے۔قومی سیکرٹریٹ پر دیدہ دلیری سے حملہ کسی عام گروہ یا تنظیم کا کام نہیں تھا، اس کے لئے مہینوں نہیں تو ہفتوں پہلے کی پلاننگ ضرور درکار تھی۔ حملہ آور یقیناََ ا س کانفرنس اور کانفرنس کے مقاصد کا ناکام بنانا چاہتے تھے۔ ایسے ممالک تو بہت سے تھے جو اس قسم کے معاہدے کے خلاف تھے مگر کھل کر تو کوئی بھی سامنے نہیں آیا تھا۔ اس بارے میں "جتنے منہ اتنے اندازے"قائم کیے جا سکتےتھے ۔جو بھی تھا مجرموں کی اعلٰی پیمانے پر مدد کی گئی تھی جس وجہ سے اتنا بڑا قدم اٹھا یا گیا تھا۔ فاکس جانتا تھا کہ قومی سیکرٹریٹ میں کس قسم کے حفاظتی اقدامات ہیں  اور یہ بھی کہ ڈائنامائٹ آسانی سے اندر نہیں لے جاتا جا سکتا تھا۔ وہاں موجود کمپیوٹرز اسلحے کی فوری نشاندہی کر دیتے تھے جب کہ اس بار ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ممکن تھا کہ ڈائنامائٹ  کسی مخصوص کَور میں چھپا کر اندرونی مدد کے ساتھ اس عمارت میں پہنچایا گیا ہو۔

فاکس ا ن لوگوں کے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا جو غیر قانونی اسلحہ سپلائی کرتے تھے ۔اس وقت وہ ایسے ہی ایک "شریف سپلائر" کا کھوج لگانے  جا رہا تھا جو معاشرے میں بہت ہی معزز انسان تھا۔سوچوں میں گم وہ ایک ریستوران کے احاطے میں داخل ہوا اور کار پارک کر کے ریستوران میں داخل ہوگیا۔ ریستوان ابھی آباد ہونا شروع ہوا تھا اور یہ آبادی رات گئے تک قائم رہتی تھی۔فاکس ایک کرسی پر جا بیٹھا اورکافی آرڈر کی ــــــ جلد ہی ویٹر کافی لے کر پہنچ گیا۔

"اعظم سے ملنا ہے۔کہاں ملاقات ہو سکتی ہے؟" اس نے دھیمے لہجے

میں پوچھا ۔

"سر ۔اس کی شفٹ تو ختم ہو چکی۔اب وہ کل آئے گا۔" ۔

"اس کی رہائش گاہ کہاں ہے؟"۔ فاکس نے پوچھا۔

"سوری سر۔اس طرح ہم ایک دوسرے کی ذاتی معلومات نہیں دے سکتے۔"ویٹر نے کہا تو فاکس نے ایک بڑا سا نوٹ میز پر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے دوبارہ وہی سوال پوچھا تو ویٹر تذبذب کا شکار نظر آیا۔

"ڈونٹ وری۔خطرے والی کوئی بات نہیں۔مجھے اس سے کچھ معلوم کرنا ہے اور آج ہی کرنا ہے، ورنہ میں کل دوبارہ یہاں آجاتا۔"فاکس نے پراعتماد لہجے میں بات کی۔

"سر ۔پھر میرے بارے میں نہ بتایئے گا پلیز ــــــ اورنگزیب جنکشن کے ساتھ ہی بستی میں رہتا ہے۔وہاں سب اسے جانتے ہیں۔ اس کے نام کے ساتھ ریستوران کا نام بھی بتائیں گے تو گھر مل جائے گا۔" ویٹر نے کہا اور نوٹ پکڑ کر تیزی سے مڑگیا کیونکہ اسی ایک ہی میزپررکے ہوئے کافی وقت ہو چکا تھا۔

فاکس اطمینان سے کافی پینے لگا۔ کافی پینے کے بعد اس نے بل ادا کیا اور کار میں سوار ہوکر تیزی سے اورنگزیب جنکشن کی طرف روانہ ہو گیا۔

پنتالیس منٹ کے سفر کے بعد وہ اورنگزیب جنکشن پہنچ گیا ــــــ وہ وہاں سے ایک چھوٹی سے بستی کے سامنے رکا۔ اس نے کار سڑک کے ساتھ ہی پارک کر دی کیونکہ جو بستی کے حالات نظر آرہے تھے، اس سے لگ رہا تھا کہ کار گلیوں میں نہیں جا سکے گی۔کار پارک کر کے وہ تیزتیز قدم اٹھاتا ہوا محلے میں داخل ہوا اور ایک کریانہ کی دکان سے اعظم کے بارے میں پوچھا ــــــ اس نے ساتھ ریستوران کا نام بھی بتایا تاکہ بغیر وقت ضائع کیے اس کا مسئلہ حل ہو جائے۔ دکاندار نے اسے اعظم کے گھر کے بارے میں سمجھایا اور فاکس کی پیدل مارچ دوبارہ شروع ہوگئی۔تقریباََ پانچ منٹ چلنے کے بعد وہ ایک درمیانے درجے کے مکان کے سامنے کھڑا تھا۔اس نے ہاتھ سے دروازے پردستک دی تو ایک چھوٹا بچہ دروازے پرآیا۔

"اعظم صاحب ہیں گھر پر؟"--- فاکس نے نرمی سے پوچھا۔

"ابو تو گھر پر ہیں لیکن اعظم صاحب یہاں نہیں رہتے۔" بچے نے توتلی

زبان میں جواب دیا تو فاکس مسکرایا۔

"ابو کو بھیجو۔۔" فاکس نے کہا تو بچہ سر ہلاتے ہوئے اندر چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد ایک شخص شلوار اور بنیان پہنے دروازے پر نمودار ہوا۔

"آپ کا بیٹا تو کہہ رہا تھا کے اعظم صاحب یہاں نہیں رہتے۔" فاکس نے مسکرا کر کہا تو وہ شخص ہنس پڑا۔

"دراصل اعظم کے ساتھ صاحب کوئی نہیں لگاتا یہاں۔اس وجہ سے کہا ہو گا اس نے۔فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟"۔ اعظم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"ایک شخص نہیں مل رہا۔" فاکس نے لاپرواہی سے کہا لیکن یہ بات سنتے ہی اعظم چونک گیا۔

"ایک منٹ۔میں بیٹھک کا دروازہ کھولتا ہوں۔" اس نے کہا اور تیزی سے اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں ساتھ والا دروازہ کھلا اور اعظم کا چہرہ نظرآیا۔

 فاکس اندر داخل ہو گیا۔ اعظم اب قمیض پہن چکا تھا، اس نے فاکس کو

بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

"آپ کیا پینا پسند کریں گے؟" ۔اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔ اب وہ پہلے والا اعظم نہیں لگ رہا تھا، وہ بہت ہی سنجیدہ اور  کاروباری شخص لگ رہا تھا۔

"شکریہ۔مجھے شارک چاہئے۔"--- فاکس نے کہا تو اعظم اچھل پڑا۔

"آپ کون ہیں؟" ---

"آپ کو قیمت سے مطلب ہونا چاہئے۔میرے بارے نہ جانیں تو بہتر ہے۔"

"کیا قیمت دیں گے آپ؟"

"تم بتاؤلیکن خیال رکھنا کہ اگر معلومات غلط ہوئیں یا تم نے شارک کو میرے جانے کے بعد اطلاع دی تو تم اس دنیاسے مٹ جاؤ گے۔" فاکس نے سخت لہجے میں کہا۔

"دو  لاکھ---"

"پچاس ہزار۔مجھے اس کا موجودہ پتہ اور سرگرمیوں کے بارے میں

رپورٹ چاہئیں۔"

"سوری۔میں نہیں جانتا۔" اعظم نے کہا تو فاکس نے ایک پچاس ہزارکی گڈی اور اس کے اوپر ایک کارڈ رکھ دیا۔ اعظم کارڈ دیکھ کر چونک گیا اور پھر کارڈ اٹھا کر دیکھا۔ کارڈ پڑھتے ہی وہ جھٹکے سے کھڑا ہوا او رپھٹی پھٹی آنکھوں سے فاکس کی طرف دیکھنے لگا۔

"یہی معلومات میں تم سے مفت لے سکتا ہوں بس ہیڈکوارٹر لے جانا پڑے گالیکن میں ذرا دوسری ٹائپ کا شخص ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارا  مستقل رشتہ قائم ہو جائے۔" فاکس نے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتےہوئے کہا۔

"آپ کو میرے بارے میں کس نے بتایا؟"۔ اعظم نے بے چین ہوتے ہوئے پوچھا۔

"ڈونٹ وری۔تم پر اب تک کوئی کیس نہیں لیکن ــــــ تم چاہو تو میں ابھی  بنا سکتا ہوں۔"۔ فاکس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آپ بعد میں پیسے واپس وصول کرنے یا

مجھے گرفتار کرنے نہیں آ جائیں گے؟"--- اعظم نے بیٹھتے ہوئے کہا۔

"ایسا کرنے کے لئے مجھے واپس آنے کی کیا ضرورت ہے۔میں تمہیں پہلے ہی ہیڈکوارٹر بلوا لیتا۔اب بتاؤ،میرے پاس وقت کم ہے۔"--- فاکس نے کرخت لہجے میں کہا۔

"اس کا اصل نام فیروز ہے اور رہائش رائل کالونی۔کوٹھی نمبر پندرہ۔"

"شارک کے گاہک کون ہوتے ہیں ؟ مقامی لوگ یا -----" فاکس نے جملہ ادھورا چھوڑدیا۔

"زیادہ تر مقامی ــــــ لیکن غیر ملکی بھی شامل ہیں۔یہ اس کی روٹین ہے۔"

"اوکے۔امید ہے ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو تم بھول جاؤ گے۔" فاکس نے کارڈ پکڑ کر جیب میں رکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ وہاں سے نکل کر وہ اپنی کار میں پہنچا اور رائل کالونی کی طرف روانہ ہو گیا۔

شارک چھوٹے پیمانے پر اسلحہ کی دیلنگ میں ملوث رہتا تھا لیکن کیونکہ اس طرح کے ہزاروں ڈیلرز مارکیٹ میں موجود تھے اس وجہ سے فاکس نے کبھی اس پر دھیان نہیں دیامگر اب شارک کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ شارک کے روابط بہت بڑی پارٹیوں کےساتھ ہوتے تھے اسی وجہ سے فاکس نے تفتیش کا آغاز اسی سے کیا تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ رائل کالونی پہنچ چکا تھا۔وہ  ایک درمیانے درجے کی کوٹھی کے سامنے رکااورگاڑی سے اتر کر گھنٹی کا بٹن دبایا اور پھر انتظار کرنے لگا۔تھوڑی دیر بعد گیٹ کی کھڑکی سے چوکیدار کا باریک چہرہ نظر آیا جس پربڑی بڑی موچھوں کا گھنا سایہ تھا۔

"فیرز صاحب سے ملنا ہے۔" اس نے نرم لہجے میں کہا۔

"کیوں ملنا ہے؟"-- چوکیدار نے اپنے جسم  کی نسبت کے برعکس بھاری آواز میں پوچھا۔

"تمہاری آڈیو، وڈیو میں تو بہت فرق ہے۔" فاکس کے منہ سے نکلا۔اس نے چوکیدار کے چہرے اور آواز کو دیکھتے ہوئے ایسا کہا تھا۔

"کون سی وڈیو؟"--- چوکیدار نے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔

"میرا مطلب ہے کہ فیروز صاحب کو یہ کارڈ دو۔" فاکس نے اسے ایک

کارڈ تھماتے ہوئے کہا تو وہ پنڈولم کی طرح سر ہلاتے ہوئے اندر چلا گیا۔ فاکس گیٹ پرکھڑا اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔کچھ دیر بعد چوکیدار واپس لوٹا تو اس نے بڑا گیٹ کھول دیا۔ فاکس گاڑی میں سوار ہو کر گاڑی اندر لے گیا اور پورچ میں کار روکنے کے بعد باہر نکلا۔ تب تک چوکیدار دروازہ بندکر کے اس کےپاس پہنچ چکا تھا۔

"میرے پیچھے آؤ۔"اس نے فاکس سے کہااور عمارت کی راہداری میں داخل ہوا۔فاکس اس کے پیچھے پیچھے تھا۔

"ہے تو یہ تمہارا کا ذاتی مسئلہ لیکن چیک اپ ضرور کروائیں۔آ پ کے جسم میں خوراک کی نالیوں کا رخ مونچھوں کی طرف ہو چکا ہے جس کی وجہ سے باقی جسم خوراک کے بحران کا شکار ہے۔اس سے اگر مونچھوں کا وزن زیادہ ہو گیا تو جسم کا توازن رکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔" فاکس نے نہایت سنجیدگی سے کہا تو چوکیدار نے یکدم مڑ کر اسے دیکھا۔اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا جیسے وہ فاکس کی بات کا مفہوم سمجھ گیا ہو۔لیکن فاکس کے چہرے پر سنجیدگی دیکھ کر خاموشی سے چل پڑا۔

"اگر تم میرا مذاق اڑا رہے ہو تو مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔" اس نے

 سخت لہجے میں کہا۔

"نہیں۔میں بھلا تمہیں کیسے اڑا سکتا ہوں۔میں سچ کہہ رہا ہوں۔تمہاری فوڈ وائرنگ میں گڑبڑ ہے۔" فاکس نے ہمدردی سے کہا ۔

"اس کمرے میں---" چوکیدار نے جیسے بہت مشکل سے برداشت کرتے ہوئے اشارہ کیااور فاکس خاموشی سے کان دبائے اندر داخل ہوا۔ یہ ایک ڈرائنگ روم تھا جسے بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔فاکس کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس کے سر پردھماکا ہوا اور وہ کٹے ہوئے شہتیر کی طرح گرتا چلا گیا۔دروازے کے پیچھے سے ایک بھاری جسم کا مالک شخص نکلا ، اس کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا۔ اس نے ڈنڈا پھینکا اور فاکس کو کندھے پرلاد کر باہر نکلا۔

"باس کو بتا دو کہ آفیسر کو بے ہو ش کر کر تہہ خانے میں لے جا رہا ہوں۔"  اس نے چوکیدار سے کہا تو چوکیدار اثبات میں سر ہلاتے ہوئے واپس مڑا جب کہ فاکس کو اٹھانے والے شخص کا رخ آخری کمرے کی طرف تھا۔اس کمرے سے تہہ خانے کا رستہ جاتا تھا  ، وہ تہہ خانے میں پہنچا اور فاکس کو زمین پر پٹخ دیا۔ وہ خود الماری کی طرف بڑھا اور الماری سے ایک نائلون کی رسی نکال کر واپس مڑا۔ اس نے فاکس کو ایک ٹانگ سے پکڑا اور گھسیٹنا شروع کیا۔

"کچھ تو عزت کرتا ہے بندہ مہمانوں کی ---" وہ شخص یہ آواز سن کر ایسے اچھلا جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو، اس کے ہاتھ سے فاکس کی ٹانگ چھوٹ گئی اور فاکس الٹی قلابازی کھا کر کھڑا ہو گیا۔

" سوٹ خراب کر دیا---" فاکس نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا اور کپڑے جھاڑنے لگا۔کپڑے جھاڑتے ہوئے وہ سپرنگ کی طرح اچھلا اور اس کی زوردار ٹکر اپنے سامنے حیرت سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے شخص کی ناک پر پڑی اور وہ اوغ کی آواز نکالتا ہوا پیچھے کو دوڑا۔ اس کا ہاتھ اپنی ناک پرپہنچ چکا تھا جس میں سے خون جاری تھا۔

"تمہاری اتنی ہمت۔۔۔پدے کہیں کے۔۔" اس نے غصیلے لہجے میں چیخ کر کہا اور وہ سانڈ کی طرح فاکس کی طرف دوڑا، اس سے پہلے کے فاکس ہٹتا، اس کا زور دار تھپڑ فاکس کے چہرے پر لگا اور فاکس گیند کی طرح اچھل کر دیوار سے ٹکرایا لیکن نیچے گرنے کی بجائے وہ دیوار سے ٹکرا کر گیند کی طرح ہی واپس اس شخص کی طرف مڑا اور اس کی گھومتی ہوئی لات اس شخص کی موٹی گردن پر پڑی، اس شخص کی گردن کو ایسا جھٹکا لگا جیسے گردن ربڑکی بنی ہوئی ہو--- اس ضرب سے ہونے والی تکلیف سے اس کا چہرہ گہرا سرخ ہو گیا تھا۔

جیسے ہی فاکس کے پاؤں زمین پرلگے اس کا دایاں ہاتھ گھوما اور زوردار تھپڑ اس شخص کے گال پر لگا جس سے اس کے چہرہ پر فاکس کی انگلیوں کے نشان بن گئے۔فاکس تیزی سے ایڑی کے بل گھوما اور اس کی لات حریف کی پنڈلیوں پر لگی اور وہ اپنا توازن کھوتے ہوئے زمین پر آرہا، فاکس نے ریسلر جیسے انداز میں الٹی قلابازی ماری اور اس کے جڑے ہوئے پاؤں اس شخص کے سینے پر لگے ۔ اس شخص کے جسم کو جھٹکا لگا اور منہ سے خون جاری ہوگیا۔ جھٹکا کھا کر اس کا جسم ساکت ہو گیا۔

فاکس تیزی سے دروازے کے پاس جا پہنچا۔ وہ جانتا تھا کہ فیروز عرف شارک جلد ہی پہنچنے والا ہے جس وجہ سے اس نے اپنے حریف کو زیادہ وقت نہیں دیا تھا۔ ابھی اسے وہاں کھڑے ہوئے دو منٹ بھی نہیں ہوئے ہوں گے جب تہہ خانے کی سیڑھیوں پرکسی کے قدموں کی آواز سنائی دی۔ آنے والا اکیلا ہی تھا  جو کہ فاکس کے لئے بہت اچھاتھا۔ فاکس دیوار کےساتھ لگ گیا۔ جیسے ہی دروازہ کھلا اور ایک قدم اندر داخل ہوا، فاکس نے ہاتھ بڑھا کر اس شخص کو کالر سے پکڑا اور جھٹکا دے کر سامنے گرانے کی کوشش کی لیکن وہ شخص فاکس کی امید سے پھرتیلا نکلا۔وہ گرا تو نہیں لیکن فاکس اسے کمرے میں کھینچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ فاکس کا اصل مقصد بھی اسے کمرے میں کھینچنا تھا کیونکہ اگر وہ باہر نکل جاتا تو پھر پتہ نہیں کیسے حالات بن جاتے۔ اس کے اندر داخل ہوتےہی فاکس نے تیزی سے دروازہ کو بند کر کے لاک کیا اور ساتھ ہی چٹخنی بھی لگا دی۔

"تم ہوش میں کیسے آئے؟"--- فیروز نے پوچھا۔

"تمہارے آدمی نے مجھے فرش پر گھسیٹنے کی کوشش کی تھی،رگڑوں سے دماغ جاگ گیا۔" فاکس نے اوٹ پٹانگ جواب دیتے ہوئے کہا ، اسی وقت ایسے لگا جیسے بجلی چمکی ہو، ایک تیزدھار خنجر ، جسے فیروز نے بڑی نفاست کے ساتھ فاکس پرپھینک دیا تھا وہ فاکس کی عقب میں موجود دروازے میں گھس گیا---کیوں کہ جس تیزی سے فیروز نے خنجر پھینکا تھا  فاکس اس سے بھی زیادہ تیزی سے جھک گیا تھا۔ فاکس نے اسی لمحے وہ خنجر نکالا اور فیروز کی طرف پھینکا۔فیروز بھی فاکس کی طرح جھکا--اور فیروز کو حیرت بھراجھٹکا لگا ــــــ وہ تیزی سے سیدھا ہوا کیونکہ خنجر اسے لگا ہی نہیں تھا ــــــ اسی وقت فاکس نے خنجر پھینک دیا، فیروز جو یہ سمجھ رہا تھا کہ خنجر کے وار سے بچ گیا ہے، خنجر ران میں گھسنے کی وجہ سے چیخ کر پھر جھکا اور یہ اس کی بھیانک غلطی بن گئی ۔ فاکس سرعت کے ساتھ اس کے سر پر پہنچا اور اس کی کنپٹی پر مکا جڑ دیا---اور پھر لگاتار تین چار مکے مار دیئے ۔فیروز دھڑا م سے نیچے گرا۔ فاکس نے وقت ضائع کیے بغیر اسے اٹھا کر کر سی پر ڈالا اور رسی سے اسے کَس کر باندھا ، پھر اس نے فیروز کے منہ پر تھپڑ مارنے شروع کر دیئے، جلدی ہی فیروز ہوش میں آ چکا تھا۔ ہوش میں آتے ہی اس نے چیخنے کی کوشش کی تو فاکس نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔

"مجھے صرف چند معلومات درکار ہیں۔۔وہ دے دو۔۔میں تمہیں زندہ چھوڑ دوں گاورنہ سڑتے رہو ادھر ہی اور اگر تم چیخے تو اس سے پہلے کہ تمہارے لوگ یہاں آئیں میں تمہارے سینے میں خنجر گھونپ دوں گا۔" فاکس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور اس کے منہ سے ہاتھ

ہٹا لیا۔

"میں تمہیں کتے کی موت ماروں گا۔" فیروز نے غراتے ہوئے کہا۔

"تم نے کس شخص کو ڈائنامائٹ  بیچا ہےجس کے ساتھ فلاجیم کا کَور بھی تھا۔" فاکس نے اندھیرے میں تیر چھوڑتے ہوئے پوچھا۔

"کیا بکواس کر رہے ہو؟ کون سا ڈائنا مائٹ اور کون سا کَور۔؟ یہ فلاجیم کیا بلا ہے میں تو یہ نام ہی پہلی بار سُن رہا ہوں۔" فیروز نے حیرت بھرے لہجےمیں جواب دیا تو فاکس ہنس پڑا۔

"فلاجیم کچھ بھی نہیں ہے۔یہ تو میں نے تم سے کچھ خاص اگلوانے کے لئے ایسے ہی ایک لفظ بول دیا تھا اور میں کامیاب رہا۔" فاکس نے ہنستے ہوئے کہا تو فیروز نے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ  ــــــ کیاتم پاگل ہو۔

"دیکھو مسٹر فیروز عرف شارک۔مجھے میرے سوالا ت کا جواب دے دو اور آرام سے باقی زندگی موجیں کروورنہ جاؤں گا تو میں پوچھ کر ہی مگر تم زندہ نہیں بچو گے۔تمہارے پہلے جواب سے میں یہ جان چکا ہوں کہ تم ڈائنامائٹ کے بارے میں  بھی جانتے ہو اور اس پرلگنے والے کوَرز کے بارے میں بھی۔مجھے وہ شخص چاہئے جسے تم نے آخری بار یہ دونوں چیزیں بیچی ہیں۔" فاکس نے آخر ی جملہ  جیسے چبا چبا کر بولا۔

"تم جیسے بہت سے آفیسر میرے تلوے چاٹتے ہیں---کر لو جو کرنا ہے۔"فیروزنے نفرت سے تھوکتے ہوئے کہا۔

"گڈ---" فاکس نے کہا اور فیروز کے منہ پرہاتھ رکھ کر دبا لیا۔ ساتھ ہی اس نے فیروز کی ران سے خنجر کھینچ کر واپس اسی زخم میں گھسانا شروع کر دیا۔فیروز کا جسم تڑپ اٹھا اور  اس کی آنکھوں میں سرخی اور پانی---دونوں ہی امڈ آئے۔ فاکس نے پورا خنجر گھسانے کے بعد پھر باہر نکالا اور واپس اسی زخم میں گھسانا شروع کر دیا ، فیروز کا جسم اب کانپنے لگ گیا تھا اور وہ اس کی چیخیں گلے میں ہی دب رہی تھی۔جب فاکس نے تیسری بار خنجر زخم پر رکھ کر دبایا تو فیروز کی آنکھیں تیز تیز جھپکنے لگیں جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو۔

"اگر تم چیخے تو جان سے جاؤ گے۔" فاکس نے تنبیہہ کرتے ہوئے ہاتھ ہٹایا اور فیروز لمبے لمبے سانس لینے لگا۔

"تم سپیشل پولیس کے آفیسر نہیں ہو۔کون ہو تم؟"--- فیروز نے ہانپتے ہوئے کہا ، اس کی ساری اکڑ نکل گئی تھی۔

"یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔" فاکس نے سرد لہجے میں کہا۔

"وہ مجھے مار ڈالیں گے۔۔۔" فیروز نے کہا، اس کا اشارہ شاید مجرموں کی طرف تھا۔

"تم نہیں بتاؤ گے تو میں تمہیں مار دوں گا۔" فاکس نے کہا۔

" ہیون کلب کا مالک۔۔راسٹر۔۔" فیروز نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا۔

"وہ لوگ تم سے کیوں یہ چیزیں لیں گے؟۔ان کے تو اپنے بڑے اونچے لیول کے تعلقات ہیں۔" فاکس نے کہا تو فیروز چونک اٹھا۔

"تم جانتے ہو اسے؟"--- فیروز نے پوچھا تو فاکس نے اس کی طرف غصیلے انداز سے دیکھا۔

"سوری---انہیں فوری سامان چاہئے تھا اور صرف میں ہی تھا جس کے

پاس اینٹی چیکنگ کَور تھا، اس وجہ سے دونوں چیزیں مجھ سے خریدی

گئیں تھی۔ " فیروز نے جواب دیا۔

"یہ چیزیں خود راسٹر لے گیا تھا؟" --- فاکس نے پوچھا۔

"نہیں ۔اس کا اسسٹنٹ لے کر گیا تھا۔" فیروز نے جواب دیا۔

"میں کیسے مان لوں کے تم سچ کہہ رہے ہو؟ ہو سکتا ہے تم مجھے ڈاج دینے کی کوشش کر رہے ہو؟"

"میرے آفس میں ڈائری موجود ہے ، اس میں تفصیلات ہیں، تم چاہوں تو میں وہ منگوا سکتا ہوں۔" فیروز نے کہا تو فاکس اس کے انداز سے سمجھ گیا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔

"تمہیں معلوم ہے تمہاری اس حرکت کی وجہ سے ملک کی کتنی بدنامی ہوئی ہے؟"

"میں نہ بیچتا تو کوئی اور بیچ دیتا ۔یہاں ایسا ہی چلتا رہے گا۔"

"تمہارا جواب مجھے پسند نہیں آیا۔" فاکس نے کہا اور اس کا ہاتھ تیزی سے گھوما اور خنجر فیروز کی شہ رگ میں اترتا گیا۔

 

 ❤

 تیسری قسط کے لئے

Click Here

مکمل ناول پی ڈی ایف میں حاصل کیجے صرف 250 روپے میں۔

ابھی واٹس ایپ پر  رابطہ کیجئے 03435941383




Post a Comment

0 Comments