گرین سیریز کا ناول نمبر 10 جلد ہی پبلش کیا جائے گا۔

#

Faisla by Farsum Khan urduafsana urdushortstories udrunovel ibnetalibgs


 Faisla urduafsana urdushortstories udrunovel ibnetalibgs

by Farsum Khan

رات ڈھل چکی تھی، آسمان پر چاند جگمکا رہا تھا، چاندی جیسی مقدس روشنی نے ہر منظر کو ڈھانپ دیا تھا۔چھوٹے سے صحن کی بلند دیواروں کے درمیان آم کا درخت نمایاں تھا جو پھل کا موسم نہ ہونے کے باوجود سبز پتوں سے لدا ہونے کے باعث  دن کی روشنی میں بہت شاندار لگتا تھا۔ جاتی گرمیوں کے دن تھے اور ہلکی ہلکی خنکی نےفضا میں قدم جمانے شروع کر دئیے تھے۔ ہوا کا اکا دکا جھونکا سردی کا تاثر چھوڑ جاتا تھا۔ ایسے میں اقصیٰ اپنے گھر کے صحن میں بچھے تخت پر اپنی کتابوں کے ساتھ براجمان تھی۔ نظریں تو کتاب پر مرکوز تھیں مگر ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا۔

"میرا دل کرتا ہے کہ میری بیٹی بھی خوب پڑھے اور زندگی میں بلند مقام حاصل کرے جو میں حاصل نہ کر سکا۔" کم پڑھے لکھے ابا اپنی نیک سیرت بیٹی کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔

"کیا کرنا ہے زیادہ پڑھ لکھ کر، بس ایک کو پڑھا دیا ہے نا وہی بہت ہے۔ اب بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے اور سسرال بھیجنے کی فکر کرو ۔"

اماں، ابا سے جھنجھلاہٹ کے ساتھ مخاطب ہوئی تھیں،ابا ان کے چڑچڑے انداز پر مسکرا دیئے۔

"کیا ہے تائی اماں! اس چڑیل کو کہاں بھجوایا جا رہا ہے؟" ۔شہریار بھی کمرے سے نکل کر اسے چھیڑتے ہوئے بولا تھا۔

اقصیٰ نے بے ساختہ اسے گھور کر دیکھا تھا  جس پر شہریار کا بلند قہقہہ فضا میں گونج گیا تھا۔

وہ ایک چھوٹا سا خاندان تھا۔ اماں، ابا، شہریار اور اقصیٰ۔۔ شہریار اس کا چچا زاد تھا، جس کی پیدائش پر چچی کی وفات ہو گئی اور چچا کے بیرون ملک جانے کے بعد ابا نے ہی اس کی پرورش کی تھی۔چچا نے مڑ کر کوئی خبر گیری نہ کی۔ابا نے سفید پوشی کے باوجود ہمیشہ ان بچوں کو ہتھیلی کا چھالہ بنا کر رکھا اور شریک حیات کو بھی ہر سکھ دیا تھا۔ شہریار کو پڑھائی کا شوق تھا تو ابا نے اپنی جمع پونجی لگا کر اسے پڑھایا بعد میں وہ یونیورسٹی کی طرف سے وظیفہ پر پڑھنے آسٹریلیا چلا گیا ۔ اقصیٰ کو بھی تعلیم کا شوق تھا لیکن وہ پرائیویٹ ہی امتحان دیتی رہی کیونکہ ابا دونوں کی تعلیم کے اخراجات نہ اٹھا سکتے تھے۔ شہریار کے جانے کے بعد ابا ہی ان کا سہارا تھے پر اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ ایک دن بینک سے آتے ہوئے ابا کا ایکسیڈنٹ ہو گیا، زخموں کی تاب نہ لا کر وہ چل بسے۔ابا نیشنل بینک میں گارڈ کی ملازمت کرتے تھے تو ان کی پینشن لگنے سے دونوں ماں بیٹی کا گزر بسر ہونے لگا تھا۔ شہریار اس کے دل میں انتظار کی شمعیں روشن کر کے ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔

تیز ہوا کے جھونکے نے جسم میں کپکپاہٹ بھری تو وہ لامتناہی سوچوں سے واپس آ گئی۔ بیتے خوشگوار لمحوں کو یاد کر کے چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔کاش وہ گئے وقت کو واپس لانے پر قادر ہوتی۔ اپنے دل میں جوگن کی طرح انتظار کی جوت جگائے وہ اس کے لئے محو انتظار تھی۔ کچھ وہ بھی وعدوں کی آس اور امیدوں کے جگنو اسے تھما گیا تھا جن کی روشنی میں وہ اس کی منتظر تھی ۔ کاش کوئی جانے والوں کو روک سکتا ــــــ  آنسو ایک بار پھر آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔

"بس بیٹا!  اندر آجاؤ، باہر ٹھنڈک بڑھ گئی ہے۔" اسے باہر بیٹھے دیکھ کر اماں نے کمرے سے آواز لگائی۔ وہ دونوں اکیلی عورتیں تھیں، رات کے اس پہر ان کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپتا رہتا تھا۔ وہ جلد از جلد اقصیٰ کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھیں۔اس سلسلے میں متعدد رشتے کروانے والوں کو بھی کہہ چکی تھیں لیکن رشتہ داری کا معیار دولت اور لمبا چوڑا جہیز ہونا اور کچھ اس کی عمر کا بڑھ جانا بھی تھا جس کی وجہ سے اس کا مناسب رشتہ طے نہ ہو سکا تھا۔

~~~~~~~~~~~~
اقصیٰ پرائیویٹ ایم اے انگلش کر چکی تھی۔ اس کی بچپن کی سہیلی ارم جو یونیورسٹی سے پڑھی تھی، اس نے اسے مقابلے کے امتحان کا

مشورہ دیا اور کتابیں بھی مہیا کر دی تھیں۔

" اقصیٰ!! تم اگر یہ امتحان پاس کر لو گی تو آفیسر بن جاؤ گی۔ میں اس امتحان کی تیاری میں ہر طرح سے پڑھائی میں تمہاری مدد کروں گی۔" ارم جو اسے کتابیں دینے آئی تھی، پرجوش لہجے میں کہنے لگی۔

"گھر کے کام کاج، اماں کی بیماری کے بعد وقت ہی کہاں ملتا ہے۔ ویسے بھی پڑھنے لکھنے کا وقت گزر چکا ہے۔ اماں میری شادی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔" بچپن کی سہیلی کے سامنے دل کھولتے ہوئے وہ یاسیت سے بولی تھی۔

"شادی ہی ہر مسئلے کا حل تھوڑی ہے۔ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاؤ گی تو اماں کے لئے بھی کچھ کر پاؤ گی اور تو اور رشتے بھی اچھے آئیں گے۔" قلبی دوست پھر محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر بولی تھی۔

"اچھا مہربان! تمہارے کہنے پر میں کوشش ضرور کروں گی۔" اقصیٰ نے چمکتی آنکھوں سے دوست کو دیکھا۔

"یہ ہوئی نا بات! مجھے پوری امید ہے تم یہ امتحان بھی پاس کر لو گی۔ اب اسی خوشی میں چائے ہی پلا دو کب تک ایسے ہی بٹھائے رکھو گی۔" ارم منہ بنا کر مصنوعی غصے سے بولی۔

"اچھا بیٹھو! میں ابھی لے کر آتی ہوں۔ اماں نے تیار کر دی ہو گی۔" اقصیٰ مسکراتے ہوئے بولی اور باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی۔


~~~~~~~~~~
اقصیٰ زور و شور سے اپنے امتحان کی تیاری کر رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ خود کو بھی بھلا بیٹھتی، ایسے میں اماں کو گرتے پڑتے خود ہی گھر کے کام
 کرنے پڑتے تھے۔ پیپرز کے دوران اسے لے کر جانے اور لانے کی ذمہ داری ارم نے سنبھال لی جو خود بھی کالج میں لیکچرار تعینات تھی۔ اللہ اللہ کر کے اس کے امتحانات مکمل ہوئے تو اماں نے سکھ کا سانس لیا۔ اس دوران ایک اور خاندان کے لوگ اسے دیکھ کر جا چکے تھے۔

"آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟" ۔اس نے گھبرا کر سوچاـــــــــ اس کے اندر کی گھٹن  تھی   کہ بڑھتی ہی جا رہی  تھی۔"بکاؤ مال کی طرح سب کے سامنے جانا، خریدار کی مرضی خریدے یا نہ خریدے اور پھر اس پر لوگوں کے طعنے سننے کے لیے اماں کا بوڑھا وجودـــــــــــــــــــــــــــ"
"
ارے! اپنی لڑکی کو سمجھاؤ، باولی ہوگئی ہے کیا؟ کیا عمر بھر گھر بیٹھنے کا ارادہ ہے؟"ــــــ   کتابوں میں منہ دئیے دیکھ کر بہت سے لوگ طنز کے نشتر چلاتے اور وہ ماں بیٹی سہنے والی تھیں کیوں کہ آسان رستے پر تو سب چلتے  لیتے ہیں لیکن کانٹوں بھری راہ پر چلنا آسان نہ تھا اور وہ بھی ان چند لوگوں میں سے تھیں جو  دنیا اور آخرت سنوارنے کے لیے اسی کانٹوں کی راہ گزر کا انتخاب کرتے ہیں جس پر چلنے سے گو ان کے پاؤں فگار ہوجاتے ہیں لیکن اس کے بدلے میں خوشیوں سے بھرا راستہ ان کا انتظار کر رہا ہوتا ہے اور وہ راستہ محنت ، عزت نفس اور خوداری کا ہوتا ہے۔

"اقصیٰ! سو گئی ہو کیا؟" اماں کی پکار پر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اماں اس کے پاس بیٹھ گئیں اور کپکپاتے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"
اقصیٰ! ایک بات کہوں تم سے؟" اماں کے ہاتھوں کی لرزش سے اس کا دل دھڑکنے لگا۔

" دیکھ بیٹی! تیری ماں کی سانس کا اب کوئی اعتبار نہیں، میں تجھے اس ظالم دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔ مجھےمعلوم ہے کہ تیرے دل میں شہریار کا خیال ہے۔ تو چاہتی ہے وہ واپس آ جائے پر بیٹی مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہو گا۔ اجنبی دنیا کی چکاچوند میں وہ اپنا آپ بھلا بیٹھا ہے۔ جس طرح اس کے باپ نے ہمیں بھلایا تھا۔ اس لئے میری بات مان لے، اپنی ماں کے بڑھاپے کا خیال کرلے۔" اماں نے بےبسی سے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ چوم لیے لیکن اندھیرے میں یہ نہ دیکھ سکی کہ بیٹی کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو چکا ہے۔
"
اماں! آپ پریشان نہ ہوں اگر کوئی رشتہ آتا ہے تو میں انکار نہیں کروں گی۔ مجھے آپ کا ہر فیصلہ قبول ہے۔" اقصیٰ متورم آنکھوں کے ساتھ بھیگے لہجے میں بولی تھی۔

"اللہ تعالی تمہیں خوشیاں دے۔ اولاد کا سکون دے آمین۔"اماں خوشی سے نہال ہو کر بولیں۔

؎ رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا

اب اختتامِ باب ضروری سا ہو گیا

بجلی بدستور منقطع تھی ،چودھویں کا چاند پوری آب و تاب سے چمک رہاتھا۔ اقصٰی نے اپنے رب کے حضور جائے نماز بچھا لی۔
"
اے اللہ! ان لوگوں کو ہدایت عطا فرما جو کھوٹے کھرے کا فیصلہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ جن کے نزدیک ہر چیز کا معیار دولت ہے۔ اے اللہ! اے میرے خالق و مالک! مجھ پر اپنے راستے آسان کردے، میرے معاملات بہتر کر دے۔"اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا مگر آج اس کے آنسوؤں کے ساتھ دل کی گہرائی سے نکلنے والی دعائیں یقیناً عرشِ الہی پر مستعجاب ٹھہری تھیں۔


~~~~~~~~~~~~

ارم کے توسط سے اسکے خالہ زاد بھائی کا رشتہ اقصیٰ کے لئے آیا تھا۔ خرم کے والدین حیات نہیں تھے۔ صرف دو بہنیں تھیں جو کہ شادی شدہ تھیں اور اسے دیکھ کر پسند کر چکی تھیں۔

"خالہ! اقصیٰ ان کو بہت پسند آئی ہے، آپ بس ہاں کر دیں۔ خرم بھائی بہت اچھے، پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ اقصیٰ کو بہت خوش رکھیں گے۔" ارم نے اماں کو راضی کرتے ہوئے کہا۔

"مجھے یہ رشتہ بہت پسند آیا ہے تم اللہ کا نام لے کر میری طرف سے ہاں کر دو کہ جب چاہیں آکر انگوٹھی پہنا جائیں۔" اماں نے اقصیٰ کی طرف دیکھ کر رضامندی دیتے ہوۓ کہا۔

"بہت شکریہ خالہ! یہ محترمہ اب میری بھابھی بنے گی۔" ارم نے شرارت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

اقصیٰ کے دل میں سناٹا سا چھا چکا تھا جسے کوئی قیمتی چیز چھن گئی ہو۔ شہریار کے خیال نےاس کے دل کو زور سے بھینچا اور ضدی دل تیز دھڑکنے لگا اس کو کھونے کا تصور بھی سوہانِ روح تھا  لیکن  وہ یہ مشکل فیصلہ کر چکی تھی۔

"ارم! تم ان کو بتا دینا کہ اگر میرا نتیجہ اچھا رہا تو میں اپنی ٹریننگ پوری کروں گی اور میری اماں ہمیشہ میری ذمہ داری کے طور پر میرے ساتھ ہی رہیں گی۔" اقصیٰ نے مضبوط لہجے میں اپنی شرائط بتائیں۔

"یہ سب باتیں پہلے ہی زیر غور آ چکی ہیں۔ انہیں تمہاری جاب سے کوئی اعتراض نہیں ہے اور صاف ظاہر ہے خالہ کو اکیلے تو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ تم بے فکر رہو۔ اچھا اب میں چلوں گی۔ میرے میاں میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔" ارم نےاٹھتے ہوئے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔

اماں کے چہرے پر طمانیت کے سائے لہرانے لگےتھے اور اقصی ـــــــــــــــ  وہ  جیسے سر جھکائے دوراہے پر کھڑی  اپنے خواب اور حقیقت  کے درمیان پھنسی ہوئی تھی۔

~~~~~~~~~~~
فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔

"السلام علیکم !!" اقصیٰ نے فون اٹھایا۔

وعلیکم السلام! اقصیٰ کیسی ہو؟ اخبار دیکھا ہے تم نے؟ تمہارا نتیجہ آ گیا ہے۔۔۔۔تم پاس ہو گئی ہو!!! " دوسری طرف سے ارم کی خوشی سے بلند آواز سنائی دی۔

"کیا واقعی!! تم سچ کہہ رہی ہو؟" اقصیٰ نے خوشی سے لرزیدہ لہجے میں پوچھا۔

"ہاں ہاں بالکل سچ! ایسا ہے کہ میں کچھ دیر تک آتی ہوں اخبار اور مٹھائی کے ساتھ۔۔۔اللہ حافظ۔" دوسری طرف سے ارم نے کہا اور فون بند کر دیا۔

" اماں! میرا نتیجہ آ گیا ہے، میں پاس ہو گئی ہوں۔" اقصیٰ نے خوشی سے اماں کے گلے لگتے ہوئے کہا۔

"اللہ! تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ تو نے میری بچی کی محنت کو پار لگایا۔" اماں نے اقصیٰ کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔ اقصیٰ بھی خوشی سے آنسو بہا رہی تھی اور اماں بھی۔۔۔۔اللہ تعالی نے اس کے نصیب کھول دئیے تھے جو دعاؤں کے بعد اس کی کڑی محنت اور ثابت قدمی کا ثمر تھا۔

اماں نے سادگی سے خرم کے ساتھ اسے بیاہ دیا تھا۔ خرم احمد کافی اچھے انسان ثابت ہوئے تھے انہوں نے اقصیٰ کا اعتماد بحال کیا۔ شادی کے کچھ عرصے بعد اقصیٰ نے اپنی ٹریننگ پوری کر لی۔ خرم نے اس کی جاب کے سلسلے میں بہت مدد کی تھی۔ اسسٹنٹ کمشنر کی ذمہ داری سنبھالنا کوئی آسان کام تو نہ تھا لیکن خرم نے اس کا بہت حوصلہ بڑھایا۔اس کی شادی کے چھ ماہ بعد اماں کا انتقال ہو گیا تھا۔ اقصیٰ کے لئے اماں کا یوں چلے جانا بہت بڑا صدمہ تھا  لیکن قسمت پر کس کا زور۔

اقصیٰ آج آفس سے جلدی گھر آ گئی تھی کیوں کہ خرم نے فون پر کسی مہمان کی آمد کا بتایا تھا وہ تازہ دم ہو کر بیٹھک میں داخل ہوئی۔
"
السلام علیکم!" اس نے اپنے شوہر اور نووارد پر سلامتی بھیجی۔

"وعلیکم السلام! " دونوں اس کے احترام میں اٹھ کھڑے ہوگئے۔

اقصیٰ جہاں تھی وہیں ٹھہر گئی کیونکہ آنے والا شہریار تھا لیکن پرانے شہریار کا عکس بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ اب اس کے سامنے ایک جوان بھرپور مرد کھڑا تھا۔ وہ دس سال بعد لوٹا تھا۔ گزرے سالوں اور وعدوں کی دھند میں لپٹا وہ یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔
"
کیسی ہو اقصیٰ؟" اسے بت بنے دیکھ کر بولا تھا۔ پُر شوق نظریں اس کے چہرے پر بھٹک رہی تھیں۔

"میں ٹھیک ہوں۔ آپ کب آئے اور یہاں کا پتہ کیسے ملا؟" اقصیٰ نے سنبھلتے ہوئے جواب دیا، خرم  اٹھ کر باہر نکلے، اقصی انہیں روکتے روکتے رہ گئی۔

"بس میں لوٹ آیا ہوں واپس، دل وہاں سے اچاٹ ہو گیا تھا۔ تایا ابو اور تائی اماں کا بہت افسوس ہے۔" اس نے تعزیت کی۔
اقصی کی آنکھوں میں اذیت کی لہر ابھری لیکن ـــــــــــــــــ وہ چھپا گئی۔

"بس اللہ کی مرضی ہے، جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے۔"

"لیکن یہ تم نے کیا کیا اقصی؟۔"۔ شہریار نے کہا ۔

"شہریار، ان باتوں کا وقت گزر چکا ہے ۔" اقصی اس کی بات سمجھ گئی تھی۔

"محبت کا وقت کبھی نہیں گزرتا۔" شہریار نے امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"کیسی محبت؟۔"۔ اقصی نے سرد مہری سے پوچھا۔

"اگر تمہیں خرم کا خوف ہے تو بے فکر رہوــــــ"

"معذرت، میں بھی ذرا لیٹ ہی پہنچا اس وجہ سے مہمان نوازی کا کوئی انتظام نہیں تھا، میں بس ابھی آیا۔" خرم نے دروازے پر رکتے ہوئے  شرمندگی سے کہا، اس کے ہاتھ میں شاپنگ بیگ تھے۔

""نہیں خرم! آپ پلیز رکیں، یہ بس جانے والے ہیں۔ "اقصی خرم سے مخاطب ہوئی تھی۔

شہریار اس کے تیور دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔

"اچھا! میں چلتا ہوں۔ بس تایا اور تائی کا افسوس کرنے آیا تھا۔" وہ ڈھیلے لہجے میں بولا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ جانے وہ کس گمان میں اس کی دہلیز تک چلا آیا تھا۔ جیسے شادی شدہ ہونے کے باوجود وہ اس کے لئے سراپا محوِ انتظار ہو گی۔
"
مسٹر شہریار ایک وقت تھا جب ہمارے گھر کو آپ کی بہت ضرورت تھی  لیکن آپ نے خبر تک نہ لی،اب مجھے اللہ کے بعد کسی کا مضبوط سہارا میسر آ گیا ہےــــــیہی اللہ کا میرے لئے انعام ہے اورمیرے لئے کافی ہے ۔" اس نے ممنونیت و تشکر سے اپنے مہربان شوہر کو دیکھا۔خرم بھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ شہریار نے چپ چاپ سب سنا، دیکھا اور شکستہ قدموں سے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

~~~~~~~~~~~~

کچھ چیزوں کی قدر و قیمت وقت کے ساتھ مشروط ہوتی ہے بعد میں اگر وہ مل بھی جائیں تو اپنی اہمیت کھو چکی ہوتی ہیں۔
جیسے وہ رنگ برنگی دنیا کا شائق تھا اور آسان راستہ اختیار کر کے اپنا سب کچھ ہار چکا تھا۔ متاع بھی، دل بھی اور عزت نفس بھی۔ اب دل کا خالی کشکول لئے در در بھٹکنا اس کا مقدر تھا۔

~~~~~~~~~~~~

تمت بالخیر

(اس تحریر کا مرکزی خیال زینت آپا کا تھا جسے میں نے اپنے انداز سے مکمل کیا۔)

Post a Comment

0 Comments