گرین سیریز کا ناول نمبر 10 جلد ہی پبلش کیا جائے گا۔

#

Psycho Episode 1 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

Psycho Episode 1 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

ATTACK OF PSYCHO

ناول #10      جون 2023

ناول کے تمام کردار، مقامات، واقعات فرضی ہیں اور مصنف کی اپنی تخلیق ہیں۔ جن میں کسی بھی قسم کی کلی یا جزوی مطابقت محض اتفاقیہ امر ہو گا جس کا مصنف ذمہ دار نہیں ۔

ناول کے کسی بھی حصے کو کاپی کرنا، نقل کرنا یا چوری کرنا قانوناََ  اور اخلاقی جرم ہے ۔ جملہ حقوق  اللہ عزوجل اور اس کے پیاروں کے بعد بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔


ہماری بات

 

 

السلام علیکم !!

            "سائیکو" پیش خدمت ہے، یہ ناول 2019 کے شروع میں لکھا گیا تھا  جس میں حسبِ ذائقہ تبدیلیاں کی گئی ہیں لیکن  کہانی وغیرہ کو بالکل بھی نہیں چھیڑا گیا تاکہ ایک کہانی کے طور پر پہلے کی طرح ہی باقی رہے جس وجہ سے شاید------ آپ کوئی الگ رائے دینے پر بھی مجبور ہو جائیں ۔ 

تبصرہ ضرور بھیجیں، بلاگ بھی وزٹ کرتے رہا کیجئے تاکہ ٹریفک بنی رہے امید ہے جلد ہی دوبارہ ملاقات ہو گی۔

والسلام

ابنِ طالب

 

(تبصرہ/رائے کے اظہار کے لئے  لنکس)

www.facebook.com/groups/ibnetalib


 

 

 

پہلی قسط

پاک سٹیٹ کا قومی اسمبلی سیکرٹریٹ بھانت بھانت کے لوگوں سے بھرا جا رہا تھا۔سیکرٹریٹ کے ایک بڑے سے ہال میں منظم انداز میں نشستیں رکھی گئی تھیں۔ نشستوں کے درمیان میں ایک بڑی لمبی ،چوڑی میز موجود تھی جو U شکل اختیار کئے ہوئے تھی۔ ہر نشست کے سامنے میز پرچھوٹے سائز کا  جھنڈا موجود تھا۔جھنڈوں کی تعداد کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ وہاں کم ازکم بیس کے قریب مندوبین براجمان ہونے والے تھے۔

ہال میں مسحور کن خوشبو دل موہنے میں اہم کردار ادا کر رہی تھی۔ میز کے گرد موجود نشستوں کے عقب میں دیوار کے ساتھ ایک ترتیب سے کرسیاں موجود تھیں جو شاید مندوبین کے ساتھ آنے والے عملے کے لئے رکھی گئی تھیں۔ اس انتظام کے ساتھ ساتھ ، مرکزی میز جہاں ختم ہوتی تھی ، وہاں سے تھوڑے فاصلے پر بہت سی کرسیاں ، اور ان کے سامنے  چھوٹے چھوٹے مگر انتہائی خوبصورت  ڈیسک رکھے گئے تھے۔ یہ جگہ قومی و بین الاقوامی صحافیوں کے بیٹھنے کے لئے مختص تھی۔صحافی آہستہ آہستہ اپنی نشستیں سنبھال رہے تھے کیونکہ اب کانفرنس کا وقت ہو چکا تھا اور کسی بھی لمحے شرکاء کی آمد ہو سکتی تھی۔

 صحافیوں کے بیٹھنے میں دس سے پندرہ منٹ گزر گئے، اسی کے ساتھ سیاہ سوٹوں اور سیاہ چشموں کے ساتھ سکیورٹی کے بارُعب جوان اپنی مخصوص جگہوں پر کھڑے ہو گئے۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب مہمان کانفرنس ہال میں آنے لگے ہیں اور ایساہی ہوا۔ یکے بعد دیگرے مختلف ممالک کے مدعو شرکاء ہال میں داخل ہونے لگے۔انہیں بہت ہی منظم طریقے سے ان کی مخصوص نشستوں تک پہنچایا گیا۔ جب سب لوگ اپنی نشستو ں پربیٹھ چکے تو پاک سٹیٹ کے وزیرِ خارجہ ،وجدان رانا  نے کھڑے ہو کر مسکراتے ہوئے سب پر نظر ڈالی۔

"السلام علیکم اور ہیلو ــــــ میں  تمام معزز مہمانوں کو اس کانفرنس میں خوش آمدید کہتا ہوں اور اپنی قوم کی طرف سے آپ سب کا ممنون ہوں کہ آپ  ہماری آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہاں تشریف لائے۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ آج کے دور میں ہم مسلمان اپنے اس مقام سے بہت نیچے جا چکے ہیں جس پرہمارے آباؤ اجداد براجمان تھے۔ اس تنزلی کی بہت سی وجوہات ہیں اور میرا خیال ہے کہ آپ سب ان سے واقف ہیں۔آپ سب اس امر سے بھی واقف ہیں کہ مسلم دنیا میں چند ایک ممالک چھوڑ کر باقی سب یا تو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں یا پھر دیگر معاشی مسائل سے دو چار ہیں۔ جن ممالک میں معاشی ترقی کرنے کی صلاحیت ہے انہیں کسی نہ کسی طرح سے خانہ جنگی اور نام نہاد دہشت گردی کا سامنا ہے جس وجہ سے وہ لوگ بجائے ترقی کرنے کے، ہر آنے والے دن اپنی جان کھو جانے کے ڈر میں مبتلا ہو کر ذہنی مریض بن رہے ہیں۔ترقی یافتہ دنیا  کے ساتھ چلنے کے لئے ضروری ہو چکا ہے کہ ہر ملک اندرونی و بیرونی طور پر پرسکون ہواور ملک کے چھوٹے سے چھوٹے پیشے سے لے کر اعلی سطح کے پیشوں میں بہتری آئے۔جن ممالک میں اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، ان ممالک میں جرائم میں بھی آئے روز اضافہ ہو رہا ہے اور ان ممالک کو مستقبل میں طاقتور ریاستوں کی طرف سے نگل لئے جانے کا بھی خدشہ ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ہر حکومت کا زیادہ تر بجٹ اپنے دفاعی نظام پر خرچ ہو جاتا ہے اور ملک ہر سال  آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کو جا رہا ہے۔اگرچہ ہر ملک اپنی عوام کی بھلائی چاہتا ہے لیکن جب ملک کے اخراجات اس کی آمدنی سے زیادہ ہوں تو ــــــ نہ تو عوام کو بنیادی سہولیات میسر آتی ہیں اور نہ ہی انفراسٹرکچر میں کوئی بہتری آتی ہے ــــــ پھر ان مسائل کے حل کے لئے بین الاقوامی معاشی اداروں کا رخ کیا جاتا ہے جو سود کی بنیاد پر ملکی سطح پر قرضے جاری کرتے ہوئے اس ملک کی معاشی سرگرمیوں اور پالیسیوں کا اختیار  اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کا خون چوسنے میں چُٹ جاتے ہیں۔یہ قرضے نسل در نسل چلتے رہتے ہیں اور انسان ــــــ جو خود کو ماڈرن سمجھتا ہے، وہ اسی دقیانوسوی سودی چکر میں پھنس جاتا ہے جو کبھی رکتا ہی نہیں۔آج کی اس کانفرنس کا مقصد اسلامی ممالک کو ایک تجارتی اور دفاعی پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہے۔ پرائم منسٹر صاحب آتے ہی ہوں گے، وہ یہ بریفنگ پہلے سے ہی جانتے ہیں اور آپ سب کو بھی کانفرنس سے چند روز قبل ایجنڈا سے آگاہ کر دیا گیا تھا، میں چاہوں گا کہ آپ اس حوالے سے کھل کر بات کریں۔" ــــــ وجدان رانا نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا، اسی وقت ہال کا دروازہ کھلا اور پرائم منسٹر صاحب اپنے پی اے کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔ تمام لوگوں نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور پرائم منسٹر شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی مرکزی نشست پر براجمان ہوئے، ان کے بیٹھتے ہی سب لوگ بیٹھ گئے۔

"میں نے کچھ مِس تو نہیں کیا؟" ــــــ پی ایم نے مسکرا کر وزیرِ دفاع سے پوچھا۔

"نو سر ــــــ ابھی بات شروع ہوئی ہے۔" ــــــ وجدان رانا نے  مودبانہ انداز میں جواب دیا۔

"جنٹلمین ــــــ میں ایک میٹنگ میں مصروف تھا جس وجہ سے میرے آنے میں دیر ہو گئی، امید ہے آپ محسوس نہیں کریں گے،چلیے اپنے مدعا پر بات شروع کرتے ہیں۔" پی ایم صاحب نے باوقار انداز میں بات شروع کی۔

"سر--ہم سب کانفرنس کے ایجنڈے اور محترم وجدان رانا صاحب کی

خیالات سے متفق ہیں۔ ان مسائل کے لئے ہماری طرف سے جو بھی تعاون درکار ہو ، ہم حاضر ہیں۔" ــــــ ایک مسلم ملک کے نمائندے نے کہا۔

"دیکھئے ــــــمیرا خیال ہے کہ متفق تو سبھی ہوں گے ــــــاصل معاملہ ہے ان مسائل کا حل۔ ہماری نظر میں اولین ترجیح معاشی ترقی و استحکام اور دفاعی نظام کی مضبوطی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی ملک کی نظر میں کوئی اور بھی قابلِ ذکر مسئلہ ہے، جس کے حل سے ملکی سالمیت پر خاطر خواہ مثبت اثر پڑ سکتا ہے  تو ــــــ اس پر بھی بات کی جا سکتی ہے۔ فی الوقت ہمارے اکھٹے ہونے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے آپس میں اکھٹے ہو کر کام کرنا چاہتے ہیں تو کن شرائط پر ایسا کیا جائے گا۔ اس امر کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کا اس معاہدے سے استحصال نہ ہو۔" ــــــ  پی ایم صاحب نے صاف گوئی سے مرکزی نکتے پر سب کی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی۔

"سرــآپ نے جن دو مسائل پر بات کی ہے، ہماری نظر میں بھی یہی دو مسائل اہم ہیں۔" ایک اور نمائندے نے کہا تو سب  اس کی ہاں میں

ہاں ملانے لگے۔

"پھر اس سے اگلامرحلہ ہے ان مسائل کا حل سوچنا۔ اس بارے میں آپ اپنی قیمتی آرا دیں۔" ــــــ پی ایم صاحب نے مسکرا کر کہا۔

"سر معاشی ترقی کے لئے اندرونی  طور پر تو ہر ملک خود ہی بہتر ہو سکتا ہے۔ " ــــــ ایک معمر نمائندے نے کہا۔

"آپ کی بات درست ہےلیکن ہم ایک دوسرے کی مدد بھی تو کر سکتے ہیں۔ جو ملک معاشی طور پر مستحکم ہیں، ان کے ماہرین کو اپنے ہاں مدعو کیا جا سکتا ہے جو متاثرہ ملک میں آ کر تحقیق کریں اور معاشی مسائل کا حل بتائیں ــــــ یا پھر اپنے طلبہ کو ترقی یافتہ ممالک میں تربیت کےلئے بھیج سکتے ہیں۔" ــــــ پی ایم صاحب نے متانت بھرے لہجے میں کہا تو ہر شخص نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔

"سرــمسلم ممالک کی بہت سے ممالک سے ان گنت درآمدات ایسی ہیں جن کی پیدوار دوسرے مسلم ممالک میں بھی ہے لیکن ہم ایک دوسرے کی مصنوعات خریدنے کی بجائے غیر مسلم ممالک کی مصنوعات خریدکر نام نہاد بڑا پن دکھاتے ہیں۔" ایک اور ممبر نے کہا۔

"میں آپ کی بات سے متفق ہوں بھی اور نہیں بھی۔ آپ کی بات سچ ہے لیکن اس کے پیچھے بہت سے محرکات ہیں۔سب سے بڑا محرک تو آپ نے واضح کر دیا کہ ہم سٹیٹس شو کرنے کے لئے ایسی مصنوعات خریدتے ہیں ــــــ دوسری چیز کوالٹی ہے۔ ہم لوگ کوالٹی اور مقدار میں بھروسے مند نہیں رہ گئے۔ ہم میں دیانتداری نہ ہونے کے برابر ہے۔" پی ایم نے کہا۔

"معذرت کے ساتھ ۔۔سر۔۔اس مسئلہ کی وجہ بھی ہم لوگ خود ہی ہیں۔ جو ایمانتداری سے کام کرتا ہے اسے ملتا بھی کچھ نہیں۔" ایک ممبر نے کہا۔

"بجا فرمایا آپ نے، اس کی وجہ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم اور ضروریات ِ زندگی کا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہونا ہے۔ اس کا حل کیا ہے؟" ــــــ پی ایم نے استفہامیہ نظروں سے سب کی طرف دیکھا۔

"سر۔۔میرے خیال سے ــــــ اگر تاجر اور کاروباری لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ ان کی چیز اگر کوالٹی سے بھرپور ہوئی تو انہیں زرِمبادلہ بھی اسی لحاظ سے ملے گا تو چیز  اچھی کوالٹی کی ہی ملے گی۔ اگر بات کریں کہ تجارت کو کیسے بہتر کر سکتےہیں تو میرا خیال ہے کہ مسلم ممالک کو آپس میں کم از کم کسٹم اور اس طرح کے دیگر ٹیرف ختم کر دینے چاہئیں یا بالکل معمولی ہونے چائیں۔ ایساکرنے سے درآمد شدہ چیز کی قیمت کم ہو گی تو لوگ خود بخود مہنگی چیز کے بدلے اس چیز کو ترجیح دیں گے جو سستی ہے اور اگر وہ سستی چیز کوالٹی کے اعتبار سے درست پائی گئی تو خود بخود مارکیٹ میں قائم ہو جائے گی۔" ــــــ سٹیٹ  کے وزیرِ صنعتی امور نے بات میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔

"ویری گڈ۔۔بہت اچھی تجویز ہے۔" پی ایم صاحب نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔

" جو ملک ٹیرف وغیرہ ختم کرے گا، اس کا نقصان بھی ہو گا۔ فرض کریں کہ ہم کسی ملک سے گندم منگواتے ہیں۔ جس ملک سے گندم منگوائی جا رہی ہے وہاں گندم بہت سستی ہے اور ہمارے ملک میں گندم کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ جب ملک میں سستی گندم آ جائے گی تو ہمارے ملک کا کسان کدھر جائے گا؟ ــــــ  اس کی مہنگی گندم کوئی بھی نہیں خریدے گا، اور ہم جانتےبھی ہوں گے کہ اس کی گندم مہنگی ہونے کی وجہ اس کے اخراجات ہیں۔" وزیرِزراعت نے کہا۔

"اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔گندم تب درآمد کروائی جائے گی جب ہمارے ملک میں گندم کی پیدوار کم ہو گی ،دوسری بات بارٹر سسٹم کے بارے میں تو آپ سب جانتے ہوں گے، مصنوعات کے بدلے مصنوعات کی تجارت ــــــ  ہم اس کو آج کے لحاظ سے بدل کر اپلائی کریں گے، یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔اس پر میری بات ہو چکی ہے۔" پی ایم صاحب نے کہا۔

"آپ ہم سے بھی شئیر کر لیں پھر وہ بات ــــــ " ایک ممبر  نے کہا۔

"ضرور کی جائے گی لیکن تب جب معاہدے کا وقت آئے گا۔ جو ممالک اس معاہدے کا حصہ ہوں گے انہیں سب بتایاجائے گا۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ احتیاط کیوں برتی جا رہی ہے۔" پی ایم نے کہا۔

"سر۔۔میرے خیال سے معاشی معاملا ت کی بہتری کے لئے یہ تجویز بہت اچھی ہے کہ مسلم ممالک مل کر  فری ٹریڈ زون  بنائیں۔اس کے علاوہ اجتماعی طور پرایسا فنڈ قائم کیا جاسکتا ہے جس سے کمزور ممالک کو بلاسود قرضہ دیا جا سکے تاکہ وہ سود کے خونی پنجوں سے بچ سکے۔" وزیرِ خزانہ نے کہاتو اکثریت نے اس کی بات کی تائید کی۔

"اب آئیں دوسرے مسئلے کی طرف ــــــ دفاعی مسائل اور اخراجات ــــــ جو ممالک اس فیلڈ میں کمزور ہیں ان پرصیہونی  طاقتیں کسی نہ کسی طرح قبضہ کرنا چاہتی ہیں، اس کا کیا حل ہو سکتا ہے؟" ــــــ  پی ایم نے پوچھا۔

"مشترکہ فوج ــــــ "ایک ممبر نے فوری کہا۔

"ناقابلِ عمل تجویز نہیں ہے لیکن اس میں بہت سے پیچیدگیاں ہیں، اگر انہیں برداشت کیا جائے تو یہ بہت اچھا مشورہ ہے۔" وزیرِ دفاع حسن امیر نے بات میں شامل ہوتے ہوئے کہا ـــ وہ شروع سے خاموش تھے، اب جب ان سے متعلق بات شروع ہوئی تو وہ بول پڑے۔

"اس کے علاوہ؟" پی ایم صاحب نے سب کی طرف دیکھا۔

"اجتماعی جنگی مشقیں  بھی اس کا حل ہیں۔ میرے خیال سے تو معاشی

 مسائل کے حل سے وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔" ایک ممبر نے کہا۔

"آپ کی بات درست ہے۔کوئی اور تجویز؟" ــــــ پی ایم صاحب نے کہا۔

" ایک اور تجویز بھی ہے۔تم سب جو چاہتے ہو وہ کبھی بھی نہیں کرسکو گے ــــــ تم لوگ کیا اپنا حفاظتی سسٹم ٹھیک کرو گے ــــــ اس کانفرنس کو تو تباہی سے بچا نہیں سکو گے۔" صحافیوں کی طرف سے ایک طنزیہ آواز بلند ہوئی جسے سن کر سب سکتے میں چلے گئے۔ ایک سوٹ پہنے یورپی شخص کھڑا ہو چکا تھا، اس کا ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں تھا۔ اس کی بات سنتے ہی گارڈز اس کی طر ف بڑھے۔

"وہیں رک جاؤ،میری انگلی پر تم سب کی جان اٹکی ہوئی ہے ــــــ خبردار جو ایک بھی قدم میری طرف بڑھایا۔" ــــــ اس شخص نے قدم پیچھے کی طرف اٹھاتے ہوئے کہاتو گارڈز ٹھٹک کر رک گئے۔

"تم لوگوں کا مسئلہ یہی ہے کہ ہمیشہ زبانی دعوٰے کرتے رہتے ہو۔کام تم لوگوں سے ہوتا نہیں، مفت عیاشی کے لئے یہ ڈھونگ رچانا شروع کر دیتےہو۔تم جو مرضی کر لو ــــــ رہو گے ہمیشہ ہمارے غلام ہی۔"-  اس نے نفرت بھرے انداز میں تھوکتے ہوئے کہا۔

"کیا چاہتے ہو تم؟" ــــــ پی ایم نے سردلہجے میں پوچھا۔ہال میں سراسیمگی پھیل چکی تھی، ہر شخص کو جیسے سامنے موت نظر آرہی تھی۔ وہ سب پھٹی پھٹی نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئےبار بار بے چینی سے کرسیوں پر پہلو بدل رہے تھے۔

"تم سب کی موت ــــــ " اس شخص نے زہریلے لہجے میں کہا۔

"تمہیں کس نے بھیجا ہے؟" ــــــ پی ایم صاحب بے خوفی سے اس سے بات چیت میں مصروف تھے۔

"موت خود ہی آتی ہے ــــــ سلیٹ زندہ باد ــــــ " اس نے زور سے نعرہ لگاتے ہوئے کوٹ کی جیب سے ہاتھ باہر کھینچا۔

 اس کے ہاتھ کھینچتے ہی ہر طرف سے چیخیں بلند ہوئیں اور ایک کان پھاڑ دھماکا ہوا ــــــ ایسا دھماکاکہ پوری عمارت کے درو دیوار ہل گئے۔ عمارت کی چھت دھماکے سے اڑی اور ساتھ ہی ہر طرف آگ لگ گئی۔ جلد ہی آگ کے شعلے دور تک نظر آنے لگے۔ وہ لوگ جو اپنی عوام کی بہتری کے لئے اکٹھے ہوئے تھے انہیں ایک لمحہ میں ٹنوں ملبے میں دفنا دیا گیا تھا، ہر طرف سائرن گونج رہے تھے اور لوگ دور کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔

 

 ❤


ایوانِ صدر کے میٹنگ ہال میں بلا کی خاموشی تھی۔ میٹنگ کے شرکاء پہنچ چکے تھے ــــــ لارڈ بھی اپنے مخصوص لباس میں موجود تھا۔ کچھ دیر بعد صدرِ مملکت اندر داخل ہوئے تو سب احتراماََ کھڑے ہو گئے۔ صدر صاحب سست رفتاری سے چلتے ہوئے اپنی نشست پر پہنچے۔ ان کے انداز میں تھکن اور ذہنی دباؤکا عنصر غالب تھا۔ ان کے بیٹھتے ہی باقی سب بھی بیٹھ گئے ــــــ  صدر صاحب نے سب پر ایک نظر ڈالی۔

"ہمارا ملک اس وقت ہر طرف سے تنقید کا شکار ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ آج دوپہر کو کیا سانحہ پیش آیا ہے۔ وہ ملک جو اس کانفرنس کے خلاف تھے، وہ خوشیاں منا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ہم پرکیچڑ اچھال رہے ہیں کہ چلے تھے سب کی رہنمائی کرنے اور اپنے ہی گھر کو جلنے سے بچا نہیں سکے۔دوسری طرف وہ ممالک جن کے نمائندے کانفرنس میں شامل تھے وہ بھی اب انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ " صدر صاحب نے دھیمے لہجے میں کہا۔

"سر۔۔یہ سب کچھ بھلائی کی نیت سے کیا گیا تھا، اسی وجہ سے بعض ملکوں کو یہ پسند نہیں تھا۔" قائم مقام وزیرِ دفاع نے کہا۔

"حیرت کی بات یہ ہے کہ مجرموں نے یہ سب کر کیسے لیا؟۔انہوں نے باقاعدہ پلاننگ کے تحت میٹنگ ہال میں ڈرامہ کیا اور پھر میٹنگ ہال کی چھت پر موجود کمرے کو اڑا دیا جس سے سب کو یہی تاثر ملا کہ میٹنگ ہال تباہ ہو گیا ہے اور اس میں شریک ہونے والے سب لوگ مر چکے ہیں۔ اس وجہ سے سب کی توجہ آگ بجھانے اور ملبہ ہٹانے پر مبذول ہوگئی اور مجرم دس لوگوں کو اغواء کر کے نکل گئے اس بات کا بھی بہت دیر سے علم ہوا۔اب اس صورتحال سے کیسے نپٹا جائے ؟ان لوگوں کو کیسے اور کہاں سے بازیاب کرایا جائے؟" ــــــ صدر صاحب نے سب سے پوچھا تو ایک بار مکمل خاموشی چھا گئی۔

"سر، میرے خیال سے اس کیس میں تیز رفتاری بہت ضروری ہے جس کے لئےایسا ادارہ جو وسائل ، تجربے اور کثیر افرادی قوت کا حامل ہو، اس کے ہاتھ میں سونپا چاہیے۔جس طرح کا معاملہ ہے،اس معاملے میں دیر کرنا مناسب نہیں لگتا۔" وزیرِ دفاع نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا۔

"آپ کی بات درست ہے، یہ ملکی سالمیت کا مسئلہ ہے ۔ پہلے ہی بہت سبکی ہو چکی ہے اب اور بے عزتی کی گنجائش نہیں۔ جو ادارہ یہ کیس لے گا وہ جان لے کہ ناکامی کی گنجائش نہیں اور اگر ایسا ہوا تو ملک کے ساتھ ساتھ  اس ادارے کے سربراہ یا پورے ادارے کو بھی بھگتنا پڑے گا گاــ ایک ہفتے میں کیس کو حل ہونا چاہئے۔کوئی ادارہ جو اپنی مرضی سے یہ کیس لینا چاہے؟" ــــــ  صدر مملکت نے سب سربراہان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

صدر صاحب نے جو کیس میں ہاتھ ڈالنے کی شرط رکھ دی تھی وہ سب کے ہوش اڑانے کے لئے کافی تھی۔جو لوگ دن دیہاڑے اتنی زیادہ سکیورٹی سے دس اہم ترین  افراد کو اغواء کر کے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح گم ہو گئے تھے انہیں بھلا اتنی آسانی سے کیسے تلاش کیا جا سکتا تھا اور وہ بھی ایک ہفتے میں ــــــ  اس سے بھی بڑی پریشانی صدر صاحب کی دھمکی نما بات تھی کہ ناکامی کی صورت میں ادارے کو بھی بھگتنا پڑے گا ــــــ

"مسٹر پریزیڈنٹ ــــــ آپ کی اجازت سے میں یہ کیس لینا چاہوں گا۔" ایک سرد اور ٹھہری ہوئی  آواز سنائی دی تو سب نے چونک کر آواز کی سمت  دیکھا۔سامنے لارڈ بیٹھا تھا جس کی نظریں صدر صاحب پر جمی ہوئی تھیں۔

"آپ کو یقین ہے کہ یہ کام آپ کر لیں گے؟" ــــــ  صدر صاحب نے پوچھا۔ وہ جانتے تھے کے اس تنظیم کے ممبرز کی  کچھ خاص نہیں اور زیادہ تجربہ کے حامل بھی نہیں ہیں۔

"یس سر۔آپ کے دیئے گئے وقت سے پہلے ہی مشن مکمل ہو چکا ہو گا۔بھروسہ رکھیں۔" لارڈ نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ اس کے لہجے میں بے پناہ اعتماد بھرا ہوا تھا۔

"اوکے لارڈ۔یہ کیس سرکاری طور پر آپ کو دیا جاتا ہے، اس کیس کے

سلسلے میں آپ خود مختار ہیں اورآپ کو ریڈ اتھارٹی کارڈز ایشو کئے جائیں گے، آپ جس سے چاہیں ، جہاں چاہیں اور جیسے چاہیں پوچھ گچھ کر سکتے ہیں، مجھے بس رزلٹ چاہئے اور اگر رزلٹ نہ ملا تو میں وہی ہو گا جس کا میں اعلان کر چکا ہوں۔" صدر صاحب نے فیصلہ کن لہجے میں کہا تو سب کے منہ کھل گئے ــــــ ایک لحاظ سے صدر اور پی ایم کے بعد سب سے زیادہ اختیارات لارڈ کو سونپے جا رہے تھے۔

"آپ کو مایوسی نہیں ہو گی۔" ــــــ لارڈ نے مطمن لہجے میں کہا۔

"اوکے۔۔وش یو گڈ لک۔۔باضابطہ احکامات آپ کو مل جائیں گے۔" صدر صاحب نے کہااور کھڑے ہو ئے، پھر تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔

ان کے بعد میٹنگ ہال میں سے سب سے پہلے نکلنے والا شخص لارڈ تھا، جس کا رخ ایوانِ صدر کے عقبی دروازے کی طرف تھا، وہ تیزتیز قدم اٹھاتا ہوا اپنی مخصوص کار میں پہنچا اور نقاب اتار کر سائیڈ سیٹ پر رکھا،وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی میک اپ میں ہی تھا۔کار کے سیاہ شیشوں میں سے اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا ، اس نے کار سٹارٹ کی اور تیز رفتار ی سے سڑک پر جا پہنچا۔کار چلاتے ہوئے جب وہ ایک قدرے سنسان سڑک پر پہنچا تو اس نے گاڑی ایک سائیڈ پرروکی اور خفیہ خانے سے ٹرانسمیٹر نکال کر ساحر کی فرئکونسی ڈائل کی۔

"ہیلو ــــــ ہیلو ــــــ چیف کالنگ تو فازر ــــــ اوور ــــــ " اس نےبار بار کال کرتے ہوئے کہا۔  عام ٹرانسمیٹر زیرِ استعمال ہونے کی وجہ سے وہ  بات کرنے میں احتیاط برت رہاتھا۔

"یس چیف ۔فازر اٹنڈنگ یو اوور۔"دوسری طرف سے ساحرکی آواز سنائی دی۔

"آج کی بریکنگ نیوز سنی تم نے؟ ۔اوور" ۔

"یس چیف۔ہمارے لئے کیا حکم ہے؟۔اوور" ۔

"چار دن کا وقت ہے۔یہ کام پورا کرنا ہے، کس نے اور کیوں یہ کام کیا ہے؟ ــــــ اس  کام کے لئے ریڈ اتھارٹی دی گئی ہے۔اوور" چیف نے کہا۔

"اوکے چیف۔ہم ابھی اس کام میں لگ جاتے ہیں۔اوور"۔

" تمہیں ایک ویڈیو ای میل کر رہا ہوں، اسے بھی چیک کر لینا۔اوور اینڈ آل۔" چیف نے کہا اور کال بند کی اور نئی فریکونسی ڈائل کی۔

"ہیلوــــــ ہیلو ــــــ چیف کالنگ۔اوور"

"یس چیف ــــــ فاکس اٹنڈنگ یو اوور۔۔"۔

"نیا مشن ہے۔ آج کی واردات کے پیچھے جن کا ہاتھ ہے ان مجرموں کا پتہ لگاؤ اور رپورٹ کرو۔دھماکے میں میڈیم پاور کا ڈائنامائٹ استعمال کیا گیا ہے، اس کلیو سے تم کام شروع کر سکتے ہو۔اوور" چیف نے سر د لہجے میں کہا۔

"یس چیف ــــــ اوور" ۔

"ایک ویڈیو ای میل کر رہا ہوں، چیک کر لینا۔اوور اینڈ آل۔" اس نے

کہا اور کال بند کر کے ٹرانسمیٹر واپس خفیہ جگہ پر رکھا اور موبائل نکال کر اپنا ای میل اکاؤنٹ کھولا۔ اس نے ساحر اور فاکس ــــــ دونوں کو الگ الگ ای میلز کیں اور موبائل جیب میں رکھ کر کار آگے بڑھا دی۔تیزی رفتاری سے کار چلاتے ہوئے وہ آدھے گھنٹے میں روشن پیلس کے سامنے موجود تھا۔اس نے ڈیش بورڈ سے ریموٹ نکال کر بٹن پریس کیا اور گیٹ کھلنے پر گاڑی اندر لے گیا۔ گاڑی گیراج میں کھڑی کر کے وہ عمارت میں داخل ہوا اور اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا۔ جیسے ہی وہ آفس میں داخل ہوا تو حیرت کے جھٹکے کے ساتھ جیسے زمین نے اس کے پاؤں جکڑ لئے۔

"ویلکم مسٹر لارڈ ــــــ "  لارڈ کی کرسی پر موجود شخص نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔

"کون ہو تم؟" ــــــ اس نے غرا کر پوچھا۔

"اتنی جلدی بھی کیا ہے، تعارف بھی ہو ہی جائے گا۔پہلے تو مبارک باد وصول کرو۔تمہیں ریڈ اتھارٹی جو مل گئی،پورے ملک کے مالک بن گئے ہو۔" اس شخص نے زہریلے لہجے میں کہا۔ وہ صحتمند جسم اور لمبے قد کاٹھ کا مالک تھا اور لارڈ کی کرسی پرگے  جھول رہا تھا ــــــ وہ اس اطمینان سے بیٹھا تھا جیسے  اپنے ہی گھر میں ہو۔

"تم یہاں کیسے پہنچے؟"

"غلط سوال۔درست سوال ہے کہ تم یہاں کیوں آئے؟" ــــــ  اس شخص نے کہا۔

"اوکے۔تم یہاں کیوں آئے ہو؟" ــــــ  اس نے پوچھااور صوفے کی طرف بڑھنے لگا۔

"حرکت نہیں۔ادھر ہی کھڑے رہو ورنہ گولی لگ جائے گی۔" اس نے سخت لہجے میں کہا، اس کے ہاتھ میں پسٹل نمودار ہو چکا تھا۔

"اوکے۔میں ادھر ہی ہوں۔میرے سوال کا جواب دو۔" لارڈ نے رکتے ہوئے کہا۔

"مجھے لارڈ سے ملاقات کا شوق تھا تو ملنے چلا آیا۔" اس شخص نے کہا۔

"میں خود لارڈ کو نہیں جانتا۔میرا نام ہاشم ہے۔میں بس ایک ڈمی ہوں۔" لارڈ نے کہا۔

"ہاشم ــــــ ہاہاہاہا ــــــ میں جانتا ہوں کہ تم ہی اصل لارڈ ہو مسٹر۔"

"کیا چاہتے ہو؟" ــــــ

"وہ دس لوگ ــــــ جنہیں تم نے اغواء کیا ہے ــــــ وہ مجھے دے

دو۔" اس شخص نے کہا تو  لارڈ نے حیرت بھرے انداز میں اس کی طرف دیکھا۔

"تمہارا دماغ توٹھیک ہے؟ میں کیسے انہیں اغواء کر سکتا ہوں؟" ــــــ  اس نے غرا کر کہا۔

"تم شروع سے میری نظروں میں ہو۔تمہاری یہ بہت بری عادت ہے کہ ہر معاملے میں ٹانگ اڑاتے ہو۔جب سے کانفرنس کی تیاریاں شروع ہوئی تھیں تم ہر کام پر نظر رکھ رہے تھے۔ مہمانوں کی سیٹوں سے لے کر سڑک تک تم نے  ہر چیز کی باریک بینی سے چیکنگ کی۔تم نے اس عمارت کی سکیورٹی کی چیکنگ بھی خود کی تھی۔میں کیسے مان لوں کہ تمہاری چیکنگ کے باوجود یہ سب کوئی اور کر گیا ہے؟" ــــــ اس شخص نے کہا۔

"میں سب کی چیکنگ تو کر سکتا ہوں، لیکن کسی کی نیت اور ارادہ نہیں جان سکتا۔یہ سب کچھ کسی کالی بھیڑ کی وجہ سے ہوا ہے اور میں اسے ڈھونڈ کر ہی دم لوں گا۔تمہاری باتوں سے میں سمجھ گیا ہوں کہ تم ہی اس کانفرنس کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہو۔تم نے اچھا کیا جو خود چلے آئے۔" ــــــ لارڈ نے زہریلے لہجے میں کہا اور آگے بڑھا لیکن اسی وقت اس پر روشنی کی پھوار سی پڑی اور وہ وہیں جم  کر رہ گیا۔

"کبھی کبھی عقلمند انسا ن بھی حد سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے مار کھا جاتا ہے،جب میں تمہاری سیٹ پر پہنچ گیا ہوں تو یہاں کے سسٹم سے کیسے ناواقف ہو سکتا ہوں۔" ــــــ اس شخص نے مسکرا کر کہااور اٹھ کر لارڈ کے پاس پہنچ گیا، لارڈ اپنی جگہ پر جیسے پتھر کا ہو گیا تھا ــــــ  نہ وہ ہل رہا تھا اور نہ ہی کچھ بول پا رہا تھا۔

"تمہاری زبان تو کچھ بتانے سے انکاری تھی، اب میں تمہارے دماغ سے ساری معلومات نکالوں گا اور ساتھ ہی میں تمہاری ٹیم کو استعمال کر کے اس ملک کے ہر راز تک پہنچوں گا۔ میں اس ملک پرراج کروں گا اور تم کچھ بھی نہیں کر سکو گے مسٹر ہاشم ــــــ آج سے میں  ہی لارڈ ہوں۔"-اس نے چہک کر کہا اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے کپڑے سے لارڈ کی آنکھیں بند کیں اور اسے کندھے پر ڈال کر باہر نکل گیا۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا گیراج میں موجود لارڈ کی مخصوص کار تک پہنچا اور ڈگی کھول کر اس نے بے رحمی سے لارڈ کو ڈگی میں پھینک کر ڈگی بند کی اور ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اسے ہر شے کے پاسورڈ کا پتہ ہو اور وہ برسوں سے یہ سب چیزیں استعمال کرتا آ رہا ہو۔ اس نے گاڑی گیراج سے نکالی اور گیٹ کے پاس جا کر ریموٹ سے گیٹ کھولا اور گاڑی لے کر سڑک پر پہنچا۔ سڑک پر پہنچتے ہی اس نے ایکسیلیٹر پر پاؤں دبایا ــــــ گاڑی غرا کر اچھلی۔

"واہ ــــــ مزہ آگیا ــــــ " اس نے ہذیانی انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔

وہ بالکل پاگل لگ رہا تھا لیکن ایک پاگل کا یوں لارڈ تک پہنچ جانا اور پھر اس بے بس کر کے اس طرح اٹھا کر لے جانا عقل کےکسی خانے میں بھی فٹ نہیں ہو سکتا تھا۔

 

 ❤

مکمل ناول PDF شکل میں حاصل کرنے کا طریقہ

03435941383 (قاسم علی شاہ) پر 250 ایزی پیسہ بھیج کر اسی نمبر پر رسید اور اپنا نام بھیج کر حاصل کر سکتے ہیں۔

 

 

 دوسری قسط   کے لئے

Click Here

 

Post a Comment

0 Comments