Kitab or Main Dying Books Pdf books  Urud Adab  online Books  home Liabrary_ibnetalib

PUBLIC LIBRARIES  vs HOME LIBRARY 

Article by Ibn e Talib

کتاب اور میں  ــــــــــــ  ابنِ طالب

السلام علیکم !

چھوٹی کہانی ــــــ  میرے ہاتھ اس عرصہ میں لگی جب "کتاب" پر مارچ اپریل کا زمانہ تھا۔ چھوٹی کہانیوں سے آہستہ آہستہ بڑی کتابوں پر نظر پھسلنے لگی اور "دنیا "تین سے پانچ روپے کی کہانی سے بڑی ہو کر 100 یا ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی ، مگر یہ "دنیا" کرائے پر حاصل کی جاتی تھی ، جیب ساتھ جو نہیں دیتی تھی۔ کالج کے بعد سے ذمہ داریاں سر اٹھانے لگیں، اگرچہ کچھ آزادی تھی لیکن ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ مطالعاتی سفر کم ہوتے ہوتے ایک اسٹیشن، یعنی "کتاب سے قطع تعلقی" پر اٹک گئی، اس کے بعد سلیبس سے زیادہ کچھ پڑھنے کا وقت ہی نہ مل سکا۔

گریجوایشن سے ماسٹرز تک، کتاب سے قطع تعلقی کی وجہ سے "پی ڈی ایف "نامی " راکھشس" سے تعارف نہ ہو سکا اور جب خود "قلمکاری" کا طبل بجانے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ طبل تو "پی ڈی ایف والے لے چکے صنم"۔۔۔ اس زمانے میں اگر "وہ" فلم بنتی تو اس کا نام دل والے کی بجائے۔" پی ڈی ایف والے۔" ہوتا۔

اب ملازمت کے بعد جیب کو گیس ہونے لگی اور خوش قسمتی سے "قلمکاری" کی "بیماری" کی وجہ سے کتاب سے دوبارہ سلام دعا ہوئی اور یوں محسوس ہوا کہ صدیوں بہت کسی اپنے سے ملاقات ہوئی، ایسے وقت میں مظہر کلیم صاحب ایم اے،بہت یاد آئے جن کی وجہ سے مجھے کتاب اور اس کی خوشبو مسحور کرتی ہے۔ ( ویسے کچھ لوگوں کو پٹرول، مٹی کا تیل بھی مسحور کرتا ہے۔)۔اب مطالعہ کےلئے وقت کم ملتا ہے لیکن جیب کو گیس کی دوا لے دی جاتی ہےجس وجہ سے الماری کا ایک خانہ اب "معافی" مانگنے لگ گیا ہے ، دوسرے کی باری آنے والی ہے۔(ایک حصے کی تصویر لگائی جا رہی ہے تاکہ کچھ تو "دل جلے"۔نوٹ۔۔ تصور آدھے حصے کی ہے تا کہ دل کا دھواں ہی نہ نکل جائے)

اتنی لمبی تمہید کے بعد آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔۔ یہ پوسٹ ان حضرات کا شکریہ ادا کرنے کے لئے ہیں جن کی وجہ سے میری ذاتی لائبریری کا سفر شروع ہوا۔

سب سے پہلے ابراہیم جمالی صاحب، جن کے بارے میں فیس بک سے علم ہوا، ان کے پیار اور دھڑکن تیز کر دینے والے "کتابی آفرز" کے لئے ممنون ہوں۔ میری لائبریری کا بیشتر حصہ ابراہیم جمالی صاحب کے کتاب سے پیار اور خلوص کی نشانی ہے۔

دوسرا"شکریہ" گجرات کی ایک دکان کو "غائبانہ" طور پر، وہاں اتفاقاََ پہنچا اور 1500 کی قیمت میں بہت سے کتابیں( جن کی مالیت 6000 کے لگ بھگ تھی)لے آیا۔

تیسرا شکریہ پھر سے ابراہیم جمالی صاحب کا، جو عید اور آزادی آفرز لے کر آئے جس کی وجہ سے الماری کے تیسرے خانے کا افتتاح ہو گا۔

چوتھا "شکریہ"۔۔آش کتاب گھر لاہور ۔ محترم محمد شیراز صاحب کا ۔ ان سے میں نے پہلی بار کتاب منگوائی، یہ کتا ب دو تین جگہوں سے نہیں ملی اور فیس بک پر شیراز صاحب کا اشتہار دیکھ کر رابطہ کیا، بہت ہی مناسب قیمت، اچھے معیار اور اچھی "رفتار" سے کتاب موصول ہوئی۔

پانچواں "شکریہ" ناگا جی کتاب گھر، اظہر کتاب گھر اور دیگر آن لائن کتب فروشوں کا  جو آج کے وقت میں نہایت مناسب قیمت پر کتب فراہم کر رہے ہیں۔

کتاب کا وجود شائد سسک رہا ہے، یہ مایوسی کی بات نہیں، حقیقت ہے۔ ٹیکنالوجی نے اگرچہ اس میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ٹیکنالوجی کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ میری نظر میں "رسد" اسی چیز کی ہوتی ہے جس کی "طلب " ہے یعنی پی ڈی ایف۔ ایک مخصوص طبقہ میں کتاب کل بھی مقبول تھی، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی لیکن۔۔۔ عام زندگی میں اس کی اہمیت کم ہو تی چلی جا رہی ہے۔ اس کی اہمیت صرف صرف والدین ہی موثر انداز میں اجاگر کر سکتے ہیں۔

میں جو کتابیں خرید رہا ہوں، ان شاء اللہ ضرور پڑھوں گا لیکن میرا اصل مقصد "اگلی نسل" کے لئے تیاری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے خاندان کے بچے ، بڑوں کو کتاب پڑھتے ہوئے دیکھیں، کتاب سے ہمارا رشتہ محسوس کریں اور کتاب کی طرف قدم بڑھائیں۔ جہاں وہ مجھے موبائل اور کمپیوٹر پر مصروف دیکھیں، وہاں وہ مجھے کتاب کو وقت دیتے بھی دیکھیں، میرے سائیڈ ٹیبل، سرہانے تلے وہ کتاب پائیں اور آج بھی جس پیار سے،مطالعہ کے علاوہ، میں الماری کا خانہ کھول کر صرف چند لمحوں کے لئے آنکھیں بند کر "سانس " اندر کھینچ کر کتابوں کی خوشبو سونگھتا ہوں، وہ بھی اس رشتے کو "تعلق" کا درجہ دیں۔(میں سچ میں یہ حرکت کرتا ہوں۔)

اس دور میں سستی، معیاری اور "دہلیز" پر کتابیں پہنچانے والوں کو سلام، ابراہیم جمالی صاحب،ناگا جی کتاب گھر، اظہر کتاب گھر ,آش کتاب گھر لاہور، گجرات فوارہ چوک کی دکان کے وہ سیلز مین بھائی،اور دیگر آن لائن کتب فروش ــــ   سب کو سلام، سلامت رہیں، اللہ آپ کو آباد رکھے، مسکراتے رہیں۔ والسلام۔

ابنِ طالب ـــــــــ (قاسم علی شاہ، منڈی بہاؤالدین)۔