گرین سیریز کا ناول نمبر 10 جلد ہی پبلش کیا جائے گا۔

#

Green Series Aakhri Waar Character green series by ibentalib

 

TWO OF LOVING AND EFFECTIVE CHARACTERS OF NOVEL 

Aakhri Waar green series by ibentalib 

گرین سیریز کے دوجاندارکردار

رات کا اندھیرا بانہیں پھیلائے روشنی کے ہر ذرے کو نگلنے کی کوشش کر رہا تھا اور خاصی حد تک کامیاب بھی رہا لیکن چنندہ روشنی کو نگلنا کسی بھی اندھیرے کی بساط نہیں تو بہت سی روشنیاں بچی ہوئی تھیں۔ تین سائے بڑی کوٹھی کے عقب میں پہنچ چکے تھے۔ وہ اندھیرے کا جزو ہی تھے جو ایک دوسرے کو محسوس کر رہے تھے وگرنہ انہیں اندھیرے سے الگ کرنا ناممکن کے قریب تھا۔تھوڑی تگ و دو کے بعد وہ وہ عمارت کے احاطے میں کھڑے تھے۔

"کتے نہ ہونے کا فائدہ ہے۔"۔ ایک غراہٹ سنائی دی۔

"تمہارے ہوتے ہوئے کتوں کی کیا ضرورت ؟۔"۔ نسوانی آواز سنائی دی لیکن لہجہ سرد ہی تھا۔

"کم از کم کام کے دوران تو اپنی بکواس بند کیا کرو۔"۔ تیسرے نے ڈانٹتے والے اندا زمیں کہا۔

"کیا کروں ،پیار ہی بہت ہے اس سے۔"۔ نسوانی آواز نے کہا۔

"تم سے کون پیار کرے گا جنگلی بندریا۔"۔ پہلے نے غرا کر کہا۔

"چَندو، منہ بند کر اور آگے بڑھ، تم بھی چپ رہو گی مَندُو"۔ تیسرے نے سرد لہجے میں کہا تو تینوں خاموشی سے آگے بڑھنے لگے۔

"صرف ٹارگٹ پر نظر رکھنی ہے یا کھل کر کھیل سکتے ہیں؟"۔ مندو نے پوچھا۔

" اگر خاموشی سے ممکن ہوتو صرف ٹارگٹ پر اور اگر رکاوٹ آئے تو رکاوٹ صاف کرنے میں جھجکنا مت۔صبح ویسے ہی بھونچال آ جائے گا، ایک لاش کیا تو چار یا آٹھ کیا؟۔"۔ تیسرے نے غرا کر کہا، وہ یوں بات کر رہا تھا جیسے چیونٹیاں مسلنے کی بات ہو رہی ہو۔

"ٹھیک ہے۔"۔ چندو کی مسرت بھری آواز سنائی دی۔

"رکاوٹ آئے تو تب زیادہ ورنہ ایک، یہ بات سمجھ لو۔"۔ تیسرے نے سخت لہجے میں بات دہرائی۔

"سمجھ لی ہے، اب کیوں بھونک رہا ہے۔"۔ مندو نے کہا تو چندو کا دبا دبا قہقہہ بلند ہوا۔

"آگے بڑھو۔"۔ تیسرے نے جیسے مندو کی بات سنی ہی نہ ہو۔

"کون ہو تم لوگ؟۔"۔ غراہٹ سن کر مندو چندو تو رک گئے لیکن ان کے پیچھے چند قدم کے فاصلے پر چلنے والا ان کا لیڈر نما بندہ غیر محسوس انداز میں آواز کی سمت کھسک گیا۔

"وہ ہم۔۔مالکن کی۔۔"۔ مندو نے بوکھلائے ہوئے لیکن دھیمے لہجے میں کہنا شرو ع کیا۔

"کیا مالکن ؟۔"۔ ایک گن بردار نے روشنی میں آتے ہوئے ڈانٹ کر پوچھا۔چندو مندو ابھی اندھیرے میں ہی کھڑے تھے۔

"وہ۔۔دراصل میں۔۔میری طبیعت۔۔" ۔ مندو نے اتنا ہی کہا تھا کہ گن بردار اچھل کر مڑا لیکن کچھ بولنے سے پہلے ہی تین فٹ کا چھرا اس کی گردن کے آر پار ہو گیا اور خون کی دھار ہلکی روشنی میں اچھلتی نظر آئی۔

"آگے بڑھو۔"۔محافظ کے عقب میں خنجر کا دستہ پکڑے لیڈر نے کہا اور گن بردار کے ہاتھ سے گرتی گن سنبھال کر محافظ کے جھٹکے لیتے وجود کو بھی اندھیرے میں کھینچ لیا۔

عمارت کے داخلی دروازے کو اندر سے بند کیا گیا تھا، مندو نے پہلو میں لٹکے بیگ سے تار نکالی اور گھٹنوں پر بیٹھ کر تالے پر ہنر آزمانے لگی۔لمحوں میں تالا کھول کر وہ عمارت میں داخل ہو رہے تھے ،تب تک ان کا تیسرا ساتھی بھی اندر پہنچ چکا تھا۔

دونوں مرد بھاری تنو توش کے مالک تھے، سر کے بال بڑھ کر منہ کو گھیر چکے تھے تھے اور داڑھی کے بال سر کے بالوں میں اس طرح گھسے ہوئے نظر آرہے تھے جیسے 'اس منہ کے سائے تلے سب ایک ہوں'۔ تینوں پینٹ شرٹ پہنے ہوئے تھے، لڑکی جسامت کے اعتبار سے سمارٹ تھی، عمر میں کم تھی لیکن چہرے پر تجربات کی ٹارچ خوب روشن تھے۔

"آگے بڑھو گے اب یا دعوت نامہ چاہیے؟"۔ لیڈر غرایا۔

"ہو سکتا ہے کوئی مصنف ہم پر کہانی لکھتے ہوئے منظر کشی کر رہا ہو، تھوڑی دیر رک جاؤ ۔"۔۔ مندو نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

"تجھ پر ڈراؤنی کہانی ہی لکھی جائے گی، ڈائن والی۔"۔ چندو نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔

"بھوتنی کا، نام چندو اور شکل توے جیسی۔"۔۔ وہ بھی غراتی ہوئی آگے بڑھی۔

"تیرا نام شکل کے مطابق ہی رکھا تھا میں نے۔"۔ چندو نے جواب دیا۔

"بس، چپ ۔"۔ لیڈر نے کہا تو دونوں 'ہونہہ۔۔" کہہ کر رک گئے۔"وہ کمرہ ہے اس کا۔"۔ لیڈر نے ایک بند دروازے کی طرف اشارہ کیا۔

"میں اسے جگا کر ماروں گی۔"۔ مندو کے لہجے میں درندگی عود آئی تھی۔

"شور کرنا ضروری نہیں۔"۔ چندو نے ناگواری سے کہا۔

"اس کے حلق میں پسٹل کی نال گھسا کر وجود کاٹوں گی، بڑا مزہ آئے گا۔"۔ مندو نے کہا۔

"مزہ تو آئے گا جب وہ چیخنا چاہے گی لیکن چیخ نہ سکے گی، زیادہ تڑپے گی۔۔"۔ لیڈر نے کہا۔

"پھر منظور ؟۔"۔ مندو نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بچگانہ کھیل کی بات کر رہے ہوں۔

"منظور۔"۔۔ باقی دونوں نے کہا تو مندو خوشی سے اچھل کر آگے بڑھی اور دروازہ کھولنے لگی۔ جلد ہی لاک کھول کر وہ تینوں بے آواز انداز میں اندر داخل ہوئے۔ کمرے کے وسط میں مسہری نما بیڈ پر ،دروازے کی طرف پشت کئے ،چادر اوڑھے کوئی سویا ہوا تھا۔ لیڈر تیزی سے آگے بڑھا اور بیڈ کی دوسری جانب پہنچ کر رک گیا لیکن جیسے ہی وہ دوسری طرف پہنچا، جھٹکے سے ساکت ہو گیا، اس کی نظریں سوئے ہوئے چاند پر ٹک گئیں، اسے یوں محسوس ہوا جیسے ہر شے رک گئی ہو۔

"کیا ہوا؟۔"۔ چندو کی سرگوشی سن کر وہ چونک گیا۔

"کچھ نہیں، دروازے پر رہو، مندو تم آگے بڑھو۔"۔ کہتے ہوئے وہ دوبارہ خوابیدہ حسن کو دیکھنے لگا ۔ اس شاید اتنے حسین چہرے کو دردناک موت مارنے کا ملال ہونے لگا تھا ۔ مندو اچھل کر بیڈ پر چڑھی تو وہ لڑکی بھی ہڑبڑا کر جھٹکے سے اٹھ بیٹھی، جیسے ہی وہ بیٹھی، مندو کا ہاتھ گھوم گیا اور لڑکی کے منہ سے چیخ نکلی ہی تھی کہ مندو کا دوسرا ہاتھ گھوما، لڑکی کی چیخ دبی کی دبی رہ گئی کیونکہ اس کے کھلے منہ میں پسٹل کی نال گھس چکی تھی۔

"چندو، مدد کرنا ذرا۔"۔ مندو نے مسرت بھری آواز میں کہا جیسے آنے والے لمحات کی سوچ بھی اس کی کسی خاص حس کو تسکین بخش رہی ہو۔ چندو تیز تیز قدم اٹھاتا بیڈ کے پاس پہنچا اور لڑکی کا ایک طرف رکھا دوپٹہ اٹھا کر اس کے ہاتھ باندھنے لگا تو لڑکی نے جھٹکا دے کر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔

"اگر کوئی حرکت کی تو گولی سےحلق پھاڑ کر رکھ دوں گی ۔"۔ مندو کے منہ سے خونخوار درندے کی سی آواز نکلی تو قیدی لڑکی کا جسم کانپ اٹھا۔ اس بار اس نے چندو کے کام میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی، نتیجتاََ اس کے ہاتھ بند چکے تھے۔

"مجھے بھی حصہ چاہیے۔"۔ چندو نے نشیلے لہجے میں کہا۔

"مجھے بھی۔"۔ لیڈر نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔

"طہ شدہ بات کے مطابق سب کی باری آئے گی لیکن یاد رکھنا

جنہوں نے کام دیا ہے ان کی مانگ بھی پوری کرنی ہے ورنہ رقم نہیں ملے گی۔"۔ چونکہ شکار مندو کے ہاتھ میں تھا، اس وقت وہ لیڈر محسوس ہو رہی تھی جبکہ وہ لڑکی جسے نیند سے جاگتے ہی ان درندوں سے واسطہ پڑ گیا تھا، وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی، اس کا وجود شدید خوف سے کانپ رہا تھا، آنکھوں میں پانی تیر رہا تھا ، وہ جال میں پھنسی ہوئی اس چڑیا کے مانند تھی جس کے پر بھی باندھ دیئے گئے ہوں، خوف کےمارے ہل بھی نہیں سکتی تھی۔

"ٹھیک ہے، منظور ہے۔"۔ دونوں نے بیک زبان کہا تو مندو نے ایک ہاتھ سے پسٹل تھامے رکھا جس کی نال لڑکی کے منہ میں تھی ،دوسرا بیگ میں ڈالا ، جب ہاتھ باہر آیا تو اس میں زنگ آلود چاقو تھا جس کی دھار کند ہو چکی تھی۔ خنجر کو دیکھ کر وہ یوں خوش ہوئی جیسے چھوٹی لڑکی کو من پسند گڑیا مل گئی ہو جبکہ قیدی لڑکی کی احتجاجی غوں غاں ابھرنے لگی۔

"چپ رہ۔"۔ مندو نے غراتے ہوئے وہ کند خنجر لڑکی کے بائیں کندھے میں اتار دیا، لڑکی کے حلق سے عجیب سی دبی دبی دھاڑ سنائی دی اور جسم جھٹکے سے یوں کانپا کہ وہ مندو سے دور بیڈ پر گری، جیسے وہ جھٹکے سے پیچھے ہوئی، منہ سے پسٹل کی نال نکلی اور کمرے میں اس کی دردناک چیخ گونج گئی، مندو پھرتی سے آگے بڑھی اور تکیہ اٹھا کر اس کے منہ پر رکھ خنجر اس کے بازو میں اتار دیا، لڑکی کے جسم کو دوبارہ جھٹکا لگا اور دبی دبی چیخ سنائی دی ۔ لڑکی کو تڑپتے، پھڑکتے اور درد کے مارے دھاڑتے سن کر ان تینوں کے چہروں پر عجیب سی چمک ابھر آئی تھی جیسے ان کی روح بھی خوش ہو رہی ہو،لڑکی کا جسم اس بار بھی پوری قوت سے تڑپالیکن اب کے وہ مندو کی گرفت سے نکل نہ سکی۔

"ایسے مزہ نہیں آ رہا، چہرہ دیکھنے دو۔"۔۔ چندو کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔

"ٹانگیں باندھ اس کمینی سیاستدان کی۔"۔ مندو غرائی تو لیڈر تیزی سے آگے بڑھا اور ایک چادر سے لڑکی کی ٹانگیں باندھنے لگا۔ لڑکی نے بہتیری کوشش کی کہ ٹانگیں نہ باندھی جائیں لیکن جسیم لیڈر اور مندو کی گرفت کے ساتھ ساتھ چاقو کے دو بے رحمانہ واروں کے بعد اس کی ایک نہ چلی تھی۔ٹانگیں باندھنے کے بعد لیڈر پیچھے ہٹا تو مندو تیزی سے لڑکی پر چڑھ بیٹھی، اوپر بیٹھتے ہی اس نے تکیہ ہٹایا اور پھرتی سے لڑکی کےمنہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

لڑکی کا چہرہ مارے تکلیف کے سیاہ پڑ رہا تھا، اس کی آنکھوں سے لگاتار پانی بہہ رہا تھا، سرخ آنکھیں، مرجھایا ہوا چہرہ اس کی بے بسی کا گواہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں منت چمک رہی تھی لیکن مندو کی آنکھوں میں درندگی اور پاگل پن۔

"جلدی کر، میری باری آنے دے۔"۔ چندو نے کہا تو مندو نے سر ہلاتے ہوئے چاقو والا ہاتھ بلند کیا تو لڑکی کا جسم تڑپنے کی کوشش کرنے لگا۔، اسی وقت دھماکے سے دروازہ کھلا تو وہ تینوں اچھل پڑے۔

گرین سیریز

آخری وار

Post a Comment

0 Comments