گرین سیریز کا ناول نمبر 10 جلد ہی پبلش کیا جائے گا۔

#

Meri Kahani (part 3,4) ibnetalib greenseries writer mazharkaleem ibnesafi imranseries jasoosiduni tarzan umroayar pdfnovels urdunovelsforkidz


 Journey of Reading Mazhar Kaleem to M.A Ibn e Safi

Meri Kahani (part 3,4) ibnetalib green series

میری کہانی۔(3(

ابنِ طالب (گرین سیریز(

عمروعیار اور ٹارزن کی دوستی کے ساتھ ساتھ ایک ایسا کردار بھی سامنے آیا جو ٹارزن کی طرح ہی طاقتور تھا، وہ اپنے دشمنوں کو مات دینے میں ماہر تھا جی ہاں ، بات ہو رہی ہے ہرکولیس پہ ۔ ہرکولیس جسے کافی عرصے تک تو )ہر کو لی یَس( پڑھا جاتا رہا اور پھر نجانے کیسے تلفظ ٹھیک ہو گیا، وہ شاید شیروں کے جبڑے چیرنے میں مصروف رہتا تھا؟۔ عمروعیار اگرچہ جاسوسی ٹچ کا حامل تھا لیکن زیادہ توجہ اس کی دو نمبریوں پہ جاتی تھی جو وہ اپنا کام نکالنے کے لئے کرتا رہتا تھا۔

جاسوسی سے آشنائی فیصل شہزاد سیریز سے ہوئی .فیصل اور شہزاد کا بچپن ہی ذائقہ دار رہا، شہزاد کی کھانے کی عادت اسے ممتاز حیثیت دلاتی ہے ، سامنے موت کھڑی ہو یا کوئی دوسری آفت، پیٹ سے بڑی کوئی آفت نہیں۔ میں نے بہت بار کوشش کی تھی کہ شہزاد کی طرح بہت کچھ کھا لوں مگر " یہ منہ اور مسور کی دال"۔ فیصل شہزاد سیریز کا ایک منظر جس میں وہ "زہریلی سوئیاں " پھینک کر مجرموں پہ ہاتھ ڈالتے ہیں آج تک شعور وہ لاشعور میں محفوظ ہے۔ان کے ساتھی ڈریکولا کو کون بھول سکتا ہے، ایسا نوکر جو غلاموں کے جیسے ان کی اطاعت کرتا ہے ، جو باورچی سے باڈی گارڈ تک کے فرائض ادا کرتا ہے، پہلا ڈریکولا تھا جو گردن میں دانت گھسا کر خون نہیں پیتا تھا۔ کالا گلاب اس سیریز کا بہت اہم حصہ رہا ہے۔ نجانے کیوں مظہر کلیم صاحب نے اس پر زیادہ نہیں لکھا۔)یہ سیریز اور کردار مظہر کلیم صاحب کی اپنی تخلیق ہے۔(

چلوسک ملوسک سے میری زیادہ نہیں بنتی تھی لیکن کہانیاں پڑھتا رہتا تھا، ایک جملہ جو چلوسک ملوسک کے حبشی محافظ نے کسی دشمن کو کہا تھا " بینگن کی اولاد۔" میں تب پانچویں کلاس میں تھا شاید، جس پہ غصہ آتا، اسے "بینگن کی اولاد " کہتا تھا، (سوچ کی حدتک)۔ یہ دونوں ایک مجرم سائنسدان کے بیٹے ہیں ، وہ سائنسدان خلائی ریسرچ کے لئے ایسا راکٹ بنانا چاہتا ہے جو گھنٹو ں میں دوسرے سیارے گھوم آئے اور جب ایسا راکٹ /جہاز بنا لیتا ہے تو اس میں پہلی اڑان چلوسک ملوسک بھرتے ہیں اور وہ بھی بلبلوں کے جہاں میں۔(یہ سیریز اور کردار مظہر کلیم صاحب کی اپنی تخلیق ہے۔)

آنگلو بانگلو سے کون نہیں واقف، ایک کا محرابی پیٹ اور دوسرا کا پہاڑ جیسا سر۔ ایک کی گردن غائب تو دوسراسرو قامت،جیسے گلی میں سے گزر تے ہوئے گھروں میں جھانکنے کے لئے پیدا ہوا ہو،۔ آنگلو بانگو کے قصے ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنائیت کا احساس لئے ہوتے تھے۔ ان کے ایڈونچر ذہنی تسکین کا باعث بنتے تھے۔(یہ سیریز اور کردار مظہر کلیم صاحب کی اپنی تخلیق ہے۔

چھن چھنگلو ایسا جادوگر بچہ جو کہ جب چاہے ،جو چاہے کر لیتا تھا۔ ایک کہانی میں وہ خود کو اور اپنے بندر کو کہیں جاتے ہوئے چھپانا چاہتا تھا۔۔دراصل سامنے موجود پہاڑی کی چوٹی پہ پہنچنا ہوتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ چیونٹی بن کر آنکھوں سے اوجھل ہوا جا سکتا اور فوری ہی دونوں چیونٹیوں میں شامل ہوتے ہیں لیکن تب بے حال ہوتے ہیں جب انسانی آنکھ سے پہاڑ تک فاصلہ نہ ہونے کے برابر اور چیونٹی بنتے ہی میلوں۔۔۔۔ وہ بھی لڑھک لڑھک کر۔ گاہے بگاہے غلطیوں پہ چھن چھنگلو کی طاقتیں چھن بھی جاتی ہیں لیکن وہ ہمت کا درس دیتے ہوئے نہ صرف دشمن کو ناکام کرتا ہے بلکہ طاقتیں واپس پانے کا حقدار بھی ٹھہرتا ہے۔(یہ سیریز اور کردار مظہر کلیم صاحب کی اپنی تخلیق ہے۔

میری کہانی۔(4)

جب کہانیاں اچھی لگنے لگیں تو مظہر کلیم مرحوم کے علاوہ دیگر مصنفین کی کہانیاں بھی پڑھنے کی کوشش کی لیکن کچھ اور پسند نہ آیا۔ اس وقت(اور اب بھی) بہت چھوٹے سائز کی کہانیاں عام طور پہ سکولوں کے قریب بنی دکانوں پہ دستیاب ہیں لیکن یہ کہانیاں تب بھی پسند نہیں آئیں ۔شروع شروع میں جب "اشتیاق بک ڈپو" انتظامیہ سے ہمارا مخصوص "معاہدہ" نہیں ہوا تھا تو یہ کتابی نشہ پورے کرنے کے لئے بڑے "پاپ" کرنے پڑتے تھے جن میں سے کچھ سچ سچ بیان کرنا چاہو ں گا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب ایک روپیہ کی دو بڑی ماچسیں مل جاتی تھی، تب ایک بڑا "ماچسا "(بڑی ماچس) بھی ہوتا تھا جو پانچ روپے کا ملتا تھا، اس کی حیثیت ماچس خاندان میں ایسی ہی تھی جیسے "اندھی چیونٹیوں میں کانا چیونٹا"۔ پڑھائی میں مدد کے لئے "کرن پبلشرز" کا خلاصہ بہت اہم سمجھا جاتا تھا، ہلکے نیلے رنگ کی جلد والی کرن پبلشرز کی انگلش گرائمر۔۔اور اس جیسی دوسری کتابیں۔۔۔ جو قیمت ان پہ لکھی ہوتی، دکاندار حاتم طائی کی طرح اس میں سے کچھ نہ کچھ رعائیت کر دیتے ، جو پیسے بچتے وہ پھر۔۔سمجھ تو گئے ہوں گے۔۔لیکن یہ معاشقہ یہاں رکا نہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ میں نے امی سے کہا "کتاب پہ قیمت تو کم درج ہے، لیکن دکاندار کہتا ہے کہ اتنے کی نہیں، پیسے زیادہ لگیں گے۔" دکاندار نے تومیری مہربانی سے امی کی بددعائیں لی ہی ہوں گی مگر میں ۔۔ ان پیسوں کی بھی۔۔جی ہاں۔۔گجریلہ مجھے پسند تھا لیکن خریدتا کتاب ہی تھا۔

ویسے یہ چھوٹا تمغہ ہے،تمغہِ حسن کارکردگی آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ تو۔۔ چھن چھنگلو ، بہت عجیب نام تھا اور ہے۔ چھنگلو خاندان کی ایک وجہ شہرت یہ تھی کہ اس خاندان کے ہر شخص کے ہاتھ،پاؤں کی انگلیاں پانچ پانچ کی بجائے چھ ،چھ تھیں تو سب چھنگلو کہلائے۔ ناپان چھنگلو، ایک بوڑھا سپہ سالار جس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی، جنگل میں رستہ بھول بیٹھتا ہےاور وہیں ،مصیبت میں پھنسے ایک بندر کی مدد کرتا ہے۔ بندر اسے بہت پسند کرنے لگتا ہے، اور اسی شب ، ناپان کی ملاقات بندر بابا سے ہوتی ہے، جس کی دعا سے اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوتے ہے جس کا نام بانان چھنگلو رکھا جاتا، اس کا قد چھوٹا ہی رہتا ہے لیکن جب وہ حرکت کرتا ہے تو "چھن،چھن" کی آواز پیدا ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس چھن چھنگلو کے نام سے مشہور ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ وہی بندر ،پنگلو رہتا ہے جس کی اس کے والد نے مدد کی ہوتی ہے۔ چھن چھنگلو کا کردار، میر ے ذہن کے مطابق تو مظہر کلیم صاحب کا ہی تھا لیکن پچھلے دنوں انٹرنیٹ کی وساطت سے ایک اور نام سامنے آیا ہے،غیاث اقبال مرحوم ، جنہوں نے 150 ناول لکھے چھن چھنگلو پہ ۔۔۔لیکن انٹرنیٹ پہ ان کی کوئی کہانی موجود نہیں۔ مظہر کلیم صاحب کی اس سیریز میں کہانیوں کی تعداد 16 ہے۔

چلوسک ملوسک کا مختصر تعارف میں نے پچھلی قسط میں دیا تھا، ایک مجرم سائنسدان کے بیٹے جو اپنے والد کے بنائے گئے راکٹ میں سیاروں کی سیر پہ نکلتے ہیں اور جنت کی سیر بھی کرتے ہیں۔۔جی ہاں ۔۔ایک کہانی جنت سے متعلق بھی ۔ ان ساتھی، جو کہ حبشی نما دیو ہے، ڈمبالو، ایک دیو نما شخصیت ہے جو دراصل ایک دیو کی اولاد ہی ہے۔اس کے ساتھ سیر کرتے ہوئے یہ لوگ زمین پہ پہنچتے ہیں، اور اپنے سفر کے دوران ،یہ عمرو عیار سے بھی ملتے ہیں، عمرو کے ساتھ بھی ان کا کارنامہ ہے، چھن چھنگلو کے ساتھ بھی اور ٹارزن کے ساتھ بھی۔۔یعنی یہ ایسے کردار ہیں جو "آلو" کی طرح ہر سبزی میں شامل ہوئے، باقی سب الگ الگ ڈش کی طرح ہی ہے۔ اس سیریز کی 15 کے قریب کہانیاں ہیں۔

اب تمغے کی بات ہو جائے جو آج تک میرے دماغ کے ڈیش بورڈ پہ سجا ہوا ہے، اور یہ راز کوئی نہیں جانتا ۔اب بس آپ لوگ۔۔۔۔شش۔۔ایک بار جب مجھے پیسے ملے تو میں نے "گھریلو قینچیسے خود ہی اپنی جیب کاٹی لی ، ان پیسوں کی کتاب خریدی اور روتا ہوا گھر لوٹ آیا کہ جیب کٹ گئی۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اس وقت اداکاری کہاں سے سیکھی؟ خیر۔۔شاید عینک والا جن کی وجہ سے۔۔ہاں۔۔یہ ذکر بھی بہت خوشگوار ہے، عینک والا جن۔۔ایسا جن جو سب پہ چڑھا لیکن بجائے اس کا علاج کرنے کے، سب اس کے اسیر ہو رہے۔یہ واحد جن ہے جو بچوں کے ساتھ ساتھ ہر عمر کے شخص پہ سوار رہا ، شاید اس وقت جن نکالنے والے بھی اس جن کے زیرِ اثر رہے ہوں گے۔تو جناب۔۔بات ہو رہی تھی جیب کاٹنے کی ، اس کا م مِیں ،مَیں خود اپنا استاد ہوں، اس حرکت کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑا کہ کافی دن،"ونڈواے سی" نما ہوا دار جیب لے کر گھومتا رہا۔

درمیان میں کہا، مجھے گجریلا پسند تھا،ہے۔۔۔۔ ضروری نہیں سب کو پسند ہو۔۔ہر انسان اس اعتبار سے آزاد ہے، پسند اپنی اپنی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Post a Comment

0 Comments