گرین سیریز کا ناول نمبر 10 جلد ہی پبلش کیا جائے گا۔

#

Meri Kahani (part 1,2) ibnetalib greenseries writer mazharkaleem ibnesafi imranseries jasoosiduni tarzan umroayar pdfnovels urdunovelsforkidz


 FIRST INSTALLMENT OF Journey of Reading Mazhar Kaleem to M.A Ibn e Safi

Meri Kahani (part 1,2) ibnetalib green series


کچھ نیا

میری کہانی۔

ابنِ طالب (گرین سیریز(

مطالعہ سے میری سلام دعا کب ،کیسے ہوئی اور کیسے یہ سفر آج تک جاری ہے؟۔ قارئین نے اگر پسند فرمایا تو سلسلہ جاری رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سلسلے کا مقصد کہیں بھی موازنہ، مقابلہ بازی نہیں اور اعلی ظرفی قائم رہی تو مصنفین کے حوالے سے اپنے خیالات بھی شامل کر وں گا ورنہ نہیں۔ دلچسپی قائم رکھنے کے لئے تھوڑی بہت منظر کشی بھی شامل ِتحریر رہے گی ۔رائے کا اظہار ضرور کریں۔ والسلام

یہ لگ بھگ سال 2000 یا 2001 کی بات ہے، ایک بچہ بڑی انہماکی سے سکول کا سبق یاد کر رہا تھا۔ چارپائی کے سرہانے بنی اونچی نشست سے ٹیک لگائے،وہ چارپائی پہ گھٹنے اوپر کئےاُن پہ کتاب رکھے دنیا و مافیہا سے بے خبر یوں سبق یاد کر رہا تھا جیسے اس کتاب کے علاوہ دنیا میں کچھ بھی رنگین و حسین اور پر کشش نہ ہو۔ بچے کی ماں شاید پڑھائی کے ساتھ اس کا یہ لگاؤ دیکھ کر حیران ہو کر بار بار اس کی طرف دیکھتی رہی(یہ بعد میں اندازہ لگایا گیا ہے) حالانکہ بچہ پڑھاکو تھا ،چاہے باپ کی ڈانٹ اور مار کی وجہ سے لیکن کلاس کے لائق بچوں میں شمار ہوتا تھا ۔

اچانک ماں تیر کی طرح بچے کی طرف آئی اور اس کی دائیں جانب کھڑےہو کر کہا"کتاب دکھاؤ، کیا پڑھ رہے ہو؟"۔ بچے کا رنگ فق ہو گیا اور یوں لگا جیسے برسوں کا بیمار ہو، دل کی دھڑکن 420 قسم کی ہوئی ، بچے نے کتاب بند کر کے بائیں طرف کی اور کہا۔"سبق پڑھ رہا ہوں امی۔" بچے نے ماں کی طرف پیار+ خوف بھری نظروں سے دیکھا۔ ماں بھی اس کی ماں تھی۔ "دکھاؤ ذرا ، ایسا کون سا سبق ہے جو اتنی محنت سے پڑھ رہے ہو؟۔" ماں کتاب کی طرف جھکی اور بچے نے کتاب کھول کر سامنے رکھ دی۔ ماں اسے گھورتی ہوئی کتاب کا صفحہ صفحہ پلٹانے لگی اور ساتھ ساتھ حیرت سے بچے کی طرف بھی دیکھتی رہی۔ کتاب دیکھ کر ماں کو جیسے مایوسی ہوئی اور بچے کو کچھ کہے بغیر کتاب پکڑائی اور حیرت کے سمندر میں غوطے لگاتی ہوئی چلی گئی۔

جیسے ہی ماں حدِ نگاہ سے دور ہوئی، بچے کے منہ سے یوں سانس خارج ہوئی جیسے غبارے سے اچانک ہوا نکلی ہو اور اس کا ہاتھ اپنے تکیے کی طرف بڑھا، تکیے کے نیچے سے ایک چھوٹی سے کتاب نکلی جس کے مصنف کا نام تھا " مظہر کلیم ایم اے"۔ بچے نے "ترسی ہوئی "کتاب کھولی ، اس میں وہ "درسی"کتاب رکھی اور پہلے کی طرح پوری توجہ سے تیاری کرنے لگ گیا ، اس بار وہ پورے اعتماد سے ، بے دھڑک ہو کر تیاری کر رہا تھا کیونکہ دوبارہ اس کی چیکنگ ہو گی ایسا ممکن نہ تھا۔

نوٹ:ـ (میں پہلے بھی مظہر کلیم صاحب کی ٹارزن یا عمرو عیار کی ہی تیاری کر رہا تھا ، نجانے کیسے دماغ کام کر گیا اور ماں کی آمد پہ وہ کہانی،کتاب سے پھسل کر تکیے کے نیچے چلی گئی ورنہ یقین مانیں بچے کو مارا کم جاتا اور گھسیٹا۔۔۔ زیادہ(

غالباََ تیسری کلاس سے ہی یہ شوق عظیم ایسی بیماری کی طرح چمٹا کہ والدین سے ہونے والی پٹائی بھی یہ "جن "نہ اتار سکی ۔یہ جن اتارنے کے لئے جوتے، لکڑی کی پٹیاں، چھڑیاں دھونی کی طرح استعمال ہوئیں، وہ تو اللہ کی مہربانی کہ کبھی مرگی سمجھ کر جوتے سنگھائے نہیں گئے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شروع میں کھلے عام پڑھی گئی کہانیاں، جب جوتوں کی سوغات ساتھ ہی لائیں تو مابدولت نے طریقہ بدلا۔ یہ طریقہ ہر قاری نے استعمال کیا ہوگا اور یقیناََ آپ بھی حیران ہوں گے کہ تب کوئی استاد بھی نہ تھا جو یہ طریقہ سکھلاتا لیکن بہت سے لوگ خودبخود یہ طریقہ سیکھ کر عملی فوائد بھی حاصل کر چکے ہیں جس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ انسان میں بہت کچھ ایک جیسے بھی ہوتا ہے، شعوری ،لاشعوری طریقے سے یا جیسے بھی۔ میں نے کتاب کے اندر کتاب رکھ کر پڑھنا شروع کیا اور بہت عرصے تک یہ طریقہ کارآمد رہا اور پھر جیسے ڈاکٹر مہلک اور لاعلاج بیماری کا حل ایک دن ڈھونڈ ہی لیتے ہیں، یہ طریقہ بھی سامنے آہی گیا اور "محنتی بچہ" پکڑا گیا۔

"جیب خرچ" جمع کر کے کہانیاں بھی سب نے خریدی ہوں گی، میں نے بھی ایسا کیا ہے ۔ ایک کتابوں والی دکان "اشتیاق بک ڈپو " سے مظہر کلیم صاحب کی کہانیاں خریدی جاتیں اور پھر۔۔۔ میں نے کلاس کے بچوں کو بھی اس نیک کام پہ لگایا اور آخر کار ایک کارآمد دوست مل ہی گیا، عید گل،گورا چٹا پٹھان، بہت ہی نرم دل دوست جس کے لئے دل سے آج بھی دعائیں نکلتی ہیں ۔ نجانے کیوں وہ دوست بنا تھا لیکن آج بھی یاد ہی کیونکہ وہ اور میں دونوں ہی کہانیاں پڑھتے تھے خیر۔۔۔۔ "خواجہ عرفان کا کھوکھا" یعنی ڈھابہ قسم کی دکان، گولیاں ٹافیاں اور اس کےعلاوہ کتابوں کی لائن لگی ہوتی تھی( عمران سیریز) ۔ ایک بار میں بھی ان میں سے کتاب لے گیا اور پلے کچھ بھی پڑا ، پھر ٹارزن ،عمروعیار، چلوسک ملوسک، چھن چھنگلو، آنگلو بانگلو اور فیصل شہزاد سیریز پہ آ گیا۔ جب پیسے کم پڑنے لگے اور بھوک بڑھنے لگی تو بغیر استاد اور لائبریری کےتصور کے ، ہم نے"اشتیاق بک ڈپو" کے مالک سے سودا کیا کہ ہم کہانی کی آدھی قیمت (ٹھیک سے یاد نہیں) کر کہانی ادھر ہی پڑھ کر واپس کر دیا کریں گے اور یوں ہم پہنچے کہانیوں کے دستر خوان پہ اور لگے سب کچھ چاٹنے۔۔۔۔۔

درست سمجھے ،فیصل شہزاد سیریز کے شہزاد کی طرح سب کچھ ہڑپنے لگے اور کہانیاں کم پڑنے لگیں۔۔۔۔۔

میری کہانی۔2

نجانے کیوں ٹارزن کو جوش آیا ، وہ پھرتی سے درخت پہ چڑھا، درخت پہ چڑھتے ہی اس نے ایک مضبوط شاخ پکڑی اور برق رفتار ی سے اس کے سہارے جھول گیا۔۔۔۔۔۔۔مگر بدقسمتی سے اس بار اس کے ہاتھ سے شاخ پھسل گئی اور دھپ کی آواز کے ساتھ ٹارز ن پشت کے بل زمین پہ گرا اور کچھ دیر یوں محسوس ہوا جیسے میدانِ جنگ میں اچانک دھماکہ ہونے سے سماعت وبصارت کی "فائبر آپٹک" کٹ گئی ہو، اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا اور سانس یوں اٹک اٹک کر نکلنے لگی جیسے باہر اس سے ادھا ر لینے والے کھڑے ہوں، ٹارزن کی ماں کا پیار بھرا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے آیا اور اور اسے کھینچ کر کھڑا کیا گیا، کھڑا کرتے ہی تڑاخ سے اس کی پشت پہ کچھ لگا اور اچانک ۔۔۔۔۔۔۔ رکی ہوئی ہر چیز چلنے لگی، یہاں تک کہ شاخ سے پھسلنے کی وجہ سے شاخ سے ٹوٹنے والے پتے بھی ہاتھ سے گر گئے۔۔ اور ساتھ ہی تڑاخ کی آواز دوبارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تڑاخ تڑاخ کی آواز ایسے آلے سے آرہی تھی جو کہ "ٹارزنوں" میں تو مقبول نہیں لیکن اس عمر کے "ٹارزنوں " کو سنبھالے کے لئے والدین کے زیرِ استعمال کر کر "ٹارزنوں" کی سوتن کا کردار ادا کرتا ہے۔

تو احباب۔۔۔۔۔۔ ایسا تو ممکن نہیں کہ بچہ ہر بار "چالاکی یا خوش قسمتی" کی چھتری تلے پناہ پاتا، موسم بدل بھی سکتا ہے اور موسم بدلا۔ ایسا بدلا کہ ہر طرف سے یوں طعنے ملنے لگے جیسے وہ بچہ کوئی نامراد عاشق ہو اور کہانیاں " کسی اور کی منگ"جن کے پیچھے وہ پڑا تھا۔ بچے کے لئے گھر "بہو کے لئے سسرال " بنتا محسوس ہوا لیکن بچہ پھر بچہ تھا، وہ بھی کسی نہ کسی طریقے کاروائی میں لگا ہی رہا۔ ٹارزن اگرچہ بہت اعلی طریقے سے پیش کیا جاتا تھا لیکن جو بات منکو میں تھی وہ ٹارزن میں کہاں؟ ناشتے کے لئے تازہ پھل لانے ہوں یا ناریل کا میٹھا پانی، ہر وقت حاضر رہتا تھا اور تو اور۔۔۔۔یہ حضرت شہد لینے جاتے تو پورا چھتہ ہی اٹھا لاتے تھے۔ ٹارزن نے منکو کے سر پہ سیب رکھ کر تیر انداز ی بھی سیکھی، منکو ٹارزن کا وزیر اعظم بھی رہا اور گاہے بگاہے ، اہم اور خطرناک موقعوں پہ ٹارزن کے لئے اہم ساتھی رہا۔ ٹارزن نہ صرف جنگلی قبائل سے لڑا، جنگلی درندوں کے جبڑوں کو چیرا بلکہ جب کبھی بیرونی(مہذب) دنیا کے غیر مہذب افراد بری نیت سے اس کے ہاتھ لگے، اس نے جم کے پٹائی کی اور لڑکیوں سے کوڑے بھی کھائے۔ ٹارزن کے دوسرے کرداروں کے ساتھ ٹیم کی صورت میں قصے بھی ہیں جیسے چلوسک ملوسک کے ساتھ ۔

ٹارزن کے علاوہ جو کردار دلچسپ تھا ، وہ ایسا تھا جس کی زنبیل میں سب کچھ سما سکتا تھا۔لمبوترے چہرے پہ چہرے سے بھی زیادہ لمبی لمبی مونچھیں اور سر پہ پگڑی ، شکل پہ عیاری ہر وقت قہقہے لگاتی رہتی۔ میری ہمیشہ خواہش رہتی تھی کہ یا تو اس کے طلسمی جوتے(کھڑاویں) مل جائیں یا سلیمانی ٹوپی۔ سلیمانی ٹوپی ،میرے خیال سے یہ لفظ اور اصطلاح بہت ہی مشہور ہے۔ شہنشاہ افراسیاب اور اس کے کئی دیو، چڑیلیں عمرو کے ہاتھ لگے اور اس کی زنبیل کا پاپی پیٹ خزانے سے بھرتا گیا۔ پرستان کا تصور بھی عمرو سیریز سے ہی ملا۔

برصغیر اور ایشیائی ادب کے پڑھنے والے عمرو عیار سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔یہ کردار”طلسم ہو شربا "نامی کتاب کے علاوہ "داستان امیر حمزہ”میں بھی ملتا ہے۔ عیاری اور ہوشیاری کا یہ پتلا خیر کی قوتوں کے ساتھ بدی کی طاقتوں سے الجھنے کے لئے مشہور ہے۔یہ ذہانت و وظانت کے ساتھ دشمنوں کو کاری ضربیں لگاتا ہے۔اور قاری سے داد وصول کرتا ہے۔طلسم ہوش ربا ہمارے ادب کی ایک حیرت انگیز تصنیف ہے۔ یہ 14جلدوں پر مشتمل ہے۔اسے لکھنؤ کے5داستان گویوں نے مل کر مکمل کیا۔اس میں سینکڑوں کردار ہیں اور سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ عمرو عیار(جو ایک جاسوس ہے)کا کردار اس میں بہت نمایاں ہے۔ عمرو عیار کی زنبیل تو محاورے کی طرح مستعمل ہے۔

اب پہلے منظر کی وضاحت کر دوں،ٹارزن کو کاپی کرتے ہوئے صحن میں لگے "دیسی توت" پہ چڑھ کر لٹکنے کی کوشش بھی کی جاتی تھی اور جب کوئی دیکھ نہ رہا ہوتا تھا تو ٹارزن کی طرح ہاہاہاہ۔۔۔ہوہوہوہ۔۔ہی ہی ہی۔۔ کر کے جانور اکھٹے کرنے کی کوشش بھی کی جاتی تھی ، جانور تو نہ آتے لیکن سائرن سے پتہ چل جاتا تھا کہ گھر میں چل کیا رہا ہے اور پھر "اماں بی کی جوتیاں"۔ ایسی مشکل گھڑی میں "عمرو" بننے کی کوشش ناکام رہتی۔ سلیمانی ٹوپی کی بجائے "سلیمانی دادی" کے پیچھے چھپنا یا "سلیمانی چارپائی" کے نیچے گھسنا۔ دادی کی وجہ سے تو بچت ہو جاتی لیکن سلیمانی چارپائی کے نیچے ہونے کے باوجود امی مجھے دیکھ لیتی تھیں، شاید کوئی سرمہ تھا جس کے سامنے عمرو کے ہتھیار ناکام تھے۔

ایک بات تو سچ ہے، عمرو کی عیار ی نے دماغ کو مصروف رکھا اور کچھ نہ کچھ "out of the box" بھی سوچا اور کیا، جس سے کسی کا نقصان تو نہ ہوا بلکہ اپنا ہی فائدہ ہوا ۔ٹارزن، اگرچہ مغربی کردار ہے لیکن مظہر کلیم صاحب نے اسے اخلاقیات میں پرو دیا، بہادری، خلوص، اچھی نیت، سب کا بھلا اور سب کی مدد، یہ چاہ اس وقت ٹارزن کی وجہ سے جاگی اور وہ ٹارزن تھا مظہر کلیم کا ٹارزن۔

ان کہانیوں کے سر ورق انتہا کی کشش اور اپنائیت لئے ہوئے ہوتے تھے، آج بھی گوگل سرچ پہ دیکھوں تو ایسا محسوس ہوتا کہ ہے وقت اب بھی وہیں ٹھہرا ہوا ہے۔ سرورق کے علاوہ کتاب کے عقب میں جو نیلی ،سرخ کتابیں اور ساتھ کہانیوں کے نام ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔جی چاہتا تھا کہ سب کی سب کہانیاں مجھے فوری مل جائیں اور فوری ہڑپ کر لی جائیں لیکن ۔۔۔۔۔۔اُس وقت کتابوں کی دکان کی جو خوشبو تھی، ان کہانیوں سےجو خوشبو آتی تھی وہ آج بھی دماغ میں ہے، میں جب بھی کتاب خریدوں تو بچوں کی طرح ایک بار ضرور اس کی خوشبو کو نتھوں سے "دل" میں اتارنے کی کوشش کرتا ہوں۔

جاری ہےـــــــــــــــــ

Post a Comment

0 Comments