Asteen ka Sanp MGM Sagar Urdu short stories urdufiction pdfnovels

a bitter side of society 

آستین کا سانپ

تحریر!

مہر جی ایم ساغر

اس کا دل غم سے بھرا ہوا تھا پتا نہیں اسے کس غلطی کی سزا مل رہی تھی۔

اسے تو یہ بھی پتا نہ تھا کہ اس سے کب اور کہاں غلطی ہوئی ہے۔

مگر نہیں اس سے ایک غلطی ہوئی تھی ایک فاش غلطی جس کا خمیازہ اب اسے بھگتنا تھاـــــــ

☆☆♡☆☆

وہ لڑکا اسے پہلی بار ہی ذرا بھی پسند نہیں آیا تھا موٹی سی ناک بھدے بھدے ہونٹ گھونگھریالے بال چھوٹی چھوٹی لال سرخ آنکھیںـــــــوہ لڑکا اس کے باپ کے ساتھ آیا تھا اور غالبا اس کے ساتھ ہیلپر کی حثییت سے گاڑی چلاتا تھا

اس کا باپ ایک ٹرک ڈرائیور تھا اور جب اس کا چکر بہاولپور کا لگتا تو وہ گاڑی بھی اپنے ساتھ اپنے گھر(یزمان) ہی لے آتا تھا۔

اس کا باپ ایک اچھا ڈرائیور تھا، اس کو ڈرائیوری لائن میں تیس سال ہو گئے تھے۔ ایسا پہلے بھی ہوتا تھا کہ جب اس کا باپ گاڑی لے کر گھر آتا تو اس کے ساتھ اس کا ہیلپر یا کنڈکٹر بھی ساتھ ہوتا اور فراغت کے دن وہ ادھر ان کے ہاں ہی ٹھہرتا اور اس گھر کو اپنے استاد کا گھر سمجھتے ہوئے عزت کی نگاہ سے دیکھتامگر اس بار ایسا نہیں تھا اس بار اس کے باپ کے ساتھ جو لڑکا آیا تھا وہ شکل و صورت سے بدصورت تو تھا ہی ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی ہوس بھی صاف نظر آتی تھی۔وہ عمر کے اس حصے میں تھی جس میں صنف مخالف کا ہر اشارہ ہر رویہ سمجھا جا سکتا تھا۔

اس پر بدکاری کا جھوٹا الزام تھا۔

اس نے اپنے دامن سے اس الزام کو ہٹانے کے لیے ہزار ہا ترکیبیں سوچیں مگر سب ہی بے سود آخر وہ ایک نتیجے پر پہنچ گئی۔اسے اب مرنا تھا اور مر کے ہی اپنے دامن سے اس الزام کو صاف کرنا تھا اور پھر وہ مر گئی۔

پورے گاؤں میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ بشیر ڈرائیور کی بیٹی نے گندم میں رکھنے والی زہر کی گولیاں کھا کر اپنی جان لے لی ہےــــــــــــــ      مگر اصل حقیقت کوئی نہ جانتا تھا۔

ہوا کچھ یوں کہ اس لڑکے نے اپنے استاد (بشیر)کی بیٹی سدرہ کو بے ڈھنگے طریقے سے پروپوز کیا اور گناہ کی دعوت دی۔اس نے تو اسے کھری کھری سنا دیں۔پہلے تو وہ اپنے ابا جی کو بتانا چاہتی تھی مگر اس نے بعد میں یہ بات اس سے چھپا لی کہ وہ لڑکا فی الوقت ان کا مہمان تھا اور کہیں بد مزگی نہ ہو جائے کیونکہ بدنامی تو پھر بھی اسی کی ہی ہونی تھی ـــــــ بس اسی غلطی کا خمیازہ اسے اپنی جان دے کر بھگتنا پڑا۔

طاہر نامی اس لڑکے نے اپنے استاد کو خود ایک عدد لو لیٹر دیا اور کہا کہ یہ خط اسے اس کی بیٹی سدرہ نے دیا ہےمگر وہ اپنے استاد خانے کی عزت پر کوئی آنچ نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔اس خط میں ایک نہایت فحش بات لکھی گئی تھی     ـــــــ گناہ کی دعوت کی گئی تھی ـــــــ دراصل طاہر کو اپنی ہزیمت بھولی نہیں تھی۔اس لیے اس نے یہ خط اپنے طور پر سدرہ کی طرف سے لکھا اور استاد کو دے دیا۔جب استاد نے یہ پڑھا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اس نے اپنی شرماں والی بیٹی کو مار مار کر ادھ موا کر دیا۔

وہ لاکھ کہتی رہی صفائیاں دیتی رہی مگر۔ ــــــــــــــ

اور اب اس نے اپنے سعی اپنے دامن سے بدنامی کا داغ مٹانے کے لیئے خودکشی کر لی تھی۔

اس میں اب پتا نہیں غلطی اس کی تھی کہ اس نے اس لڑکے کی گناہ کی دعوت کو ٹھکرا دیا، یا پھر اس لڑکے کی غلطی تھی جس نے محض حیوانی خواہشات پوری کرنے کے لیئے ایک معصوم جان لے لی تھی، یا پھر استاد بشیر کی غلطی تھی جو ایک آستین کا سانپ پالے بیٹھا تھامگر جو بھی تھا ایک ہنستا بستا گھر اجڑ گیا تھا  اور ایک حساب سے سدرہ کی اپنے تئیں دی گئی قربانی بھی رائگاں ہی گئی  ـــــــ

فیصلہ آپ کے ہاتھ میں!

ختم شد

آراء کا منتظر