Psycho Episode 7 Green Series by Ibnetalib jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

TAKING CONTROL OF EVERYTHING

ساتویں قسط

سائیکوجب ٹیکسی میں بیٹھا پچھلے حالات پر غور کر رہا تھا تو ٹیکسی ڈرائیور پر دھیان پڑنے سے پہلے جو کچھ ہوا تھا ، سائیکو کا دماغ ایک بار ہل گیا تھا اور لارڈ کی کرسی ہاتھ سے جاتی ہوئی محسوس ہونے پر وہ بس ناک کی سیدھ میں سوچ رہا تھا، شاید یہی لارڈ کا پلان بھی تھا کہ وہ ایک خاص سمت میں ہی الجھا رہے، مگر دیر سے ہی سہی  سائیکو کا دھیان ڈرائیور کی طرف مبذول ہوا اور پھر اس نے جب ڈرائیور سے گفتگو کی اور ڈرائیور کا انداز دیکھا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ ڈرائیو کوئی اور نہیں ۔۔بلکہ لارڈ ہے۔ سائیکو اسے اپنے کسی بھی نئے اڈے میں نہیں لے جانا چاہتا تھا اس وجہ سے وہ پرانے اڈے پر گیا اور ڈرائیور کو کسی قسم کا شک بھی نہ ہونے دیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے علیم کو ڈرائیو ر کی نگرانی پر چھوڑا اور خود اندر جا کر لباس میں خنجر چھپائے اور دو ہینڈ گرنیڈ جیب میں ڈال کر باہر نکلا۔ اس نے علیم کو وہاں سے نکل جانے کا مشورہ دیا اور خود لارڈ کا شکار کھیلنے کی کوشش کی جس میں وہ بری طرح ناکام رہا۔ اس ناکامی کے بعد سائیکو نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ پہلی بار تو ا س دھوکے سے لارڈ پر ہاتھ ڈال لیا مگر اب جب سامنے سے وار کرنے کی باری آئی تو اسے لارڈ اپنے آپ سے بہت آگے کی چیز نظر آیا۔لارڈ نہ صرف پھرتی میں یکتا تھا بلکہ وہ چالاک اور حاضر دماغ بھی تھا۔سائیکو یہ تو جانتا تھا کہ لارڈ اپنی رفتار کے لئے مشہور ہے مگر اب سامنا ہوا تو یہ بات سمجھ بھی گیا۔ جس کام کے لئے اس نے بہت سی پلاننگ کی ، ذرائع استعمال کئے  اور اپنی جان کا رسک اٹھایا وہ لارڈ نے ایک ہی رات کے چند گھنٹوں میں مٹی میں ملا دیا۔ سائیکو اب لارڈ سے خائف بھی تھا اور دوبارہ  لارڈ سے ٹکرانے کا جنون بھی رکھتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس وقت بہت کم ہے ، اگر اس سے کوئی بھول چوک ہوئی تو اس کی لاش بھی کسی کو دستیاب نہیں ہو گی۔اگرچہ ایوانِ صدر میں سائیکو کامیاب نہیں ہوا تھا، روشن پیلس اور لارڈ کی کرسی اس سے چھن گئی تھی اور لارڈ نے اسے بھاگنے پر مجبور کیا تھا مگر اس سب کے باوجود اسے یہ سکون تھا کہ اس کے پاس ایم ایٹ فارمولا ہے جو پورے ملک کی مشینری کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔وہ اسی فارمولے کو ہتھیار بنانا چاہتا تھا۔

            اس نے لارڈ کے سامنے سچ کہا تھا کہ اسے بہت سی حکومتوں نے مل کر ہائر کیا تھا ۔ وہ ہر ترقی یافتہ ملک میں کام کر چکا تھا اور بیک وقت پاگل اور ذہین شخص تھا۔ اب تک اس نے میک اپ صاف نہیں کیا تھا جس سے اس کی اصل قومیت سامنے آتی، نہ ہی اس نے کسی ایک خاص ملک کے لوگوں کو ٹیم میں رکھا تھا۔ اس کی ٹیم میں بھانت بھانت کے لوگ شامل تھے مگر سب پیادے تھے، ایک وہی ان کا راجا تھا۔جب سے اس نے ایم ایٹ فارمولا حاصل کیا تھا اسی وقت سے اس نے فارمولے کا سودا ایک ملک سے کر چکا تھا۔

اس ملک میں اس کا اصل ٹاسک اسلامک ممالک کی ہونے والی کانفرنس کا کسی طرح ناکام کرنا  اور حکومتی شیرازہ بکھیرنا تھا۔ اس کام کے لئے اس نے سیکرٹیریٹ میں موجود چند افراد کو خریدا، پیسے کھلا کر آئی ڈی کارڈز ایشو کروائے اور انہی لوگوں کے ذریعے اس نے عمارت میں ڈائنامائٹ سیٹ کروایا۔ اس کاپلان ہر شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا تھا مگر پتہ نہیں کیسے اتنی بڑی پاور کا ڈائنامائٹ پھٹنے کے باوجود صرف ایک فلور کے چند کمرے تباہ ہوئے تھے، یا تو ڈائنامائٹ ٹھیک نہیں تھا یا پھر کسی نے اسے بدل دیا تھا۔بم پھٹتے ہی وہاں موجود لوگوں میں سے دس نہایت اہم شخصیات  ایسے غائب ہو ئیں جیسے ان کا کبھی وجود ہی نہ رہا ہو۔ ان لوگوں کے غائب ہونے کی وجہ سے سائیکو کا مشن طوالت کا شکا ر ہو گیا تو وہ لارڈ کے پیچھے لگ گیا۔ اس کے خیال سے جو دس لوگ غائب ہوئے تھے وہ لارڈ نے کروائے تھے مگر جب اس نے لارڈ کو ٹرانس میں لیا تھا تو خاص طور پر ان لوگوں کے بارے میں پوچھا تھا۔ لارڈ کے ذہن میں ان لوگوں کے متعلق کچھ بھی نہیں تھا لیکن لارڈ کی سیٹ اس کے لئے  الہ دین کا چراغ تھی جس وجہ سے وہ جم بیٹھا ۔

لارڈ کے سیٹ اپ سے متعلق بنیادی معلومات وزراتِ دفاع سے مل گئی تھیں جن کی بنیاد پر اس نے روشن پیلس پر سائنسی کاکردگی دکھاتے ہوئے قبضہ جما لیا کیونکہ جن ممالک کے لئے وہ کام کر رہا تھا  ــــــ سائنس ان کے گھر کی باندی تھی۔  روشن پیلس میں کامیابی سے داخل ہونے کے بعد وہاں موجود کاغذات نے اسے لارڈ اور گرین سروس کو سمجھنے میں کافی مدد دی  اور پھر لارڈ اس کے ہتھے چڑھ گیا جس کے بعد سارا کام ہی آسان ہو گیا۔  جب تک لارڈ اس کے قبضے میں تھا ،سائیکو دندناتا پھر رہا تھا لیکن اب لارڈ نے اسے دھن کر رکھ دیا تھا جس وجہ سے سائیکو کےپرسکون ذہن میں دوبارہ شیطانی منصوبےانگڑائی لینے لگے۔

پہلی بار اس کے ٹرانس سے کوئی اس طرح بچ نکلا تھا ، اس کا مطلب تھا کہ لارڈ کا دماغ کوئی خاص قسم کی چیز تھی جس سے سب کچھ نکال لینا ممکن نہیں تھا۔بہت سے خدشات پیدا ہو گئے تھے کہ  سائیکو جو کچھ اس کے دماغ سے نکال سکا وہ سب سچ ہے یا کہ دھوکا؟--- فی الحال وہ پہلی فرصت میں وہ  فارمولا اس ملک سے نکالنا چاہتا تھا تا کہ سکون سے اپنے اصلی مشن پر کام کرتے ہوئے اس کانفرنس کے معاملے کا نپٹا سکے، اس کے بعد وہ دوبارہ لارڈ اور اس کی زخمی ٹیم کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنے والا تھا۔ وہ یہ جان چکا تھا کہ گرین سروس کے ممبرز بہت زیادہ زخمی ہیں مگر--- زندہ ہیں۔اس کے کچھ لوگ اس خصوصی عمارت کے گرد پہرے پرتھے جہاں انہیں رکھا گیا تھا۔

سائیکو یہ بھی جانتا تھا کہ اب لارڈ اسے پاگلوں کی طرح تلاش کر رہا ہو گا کیونکہ وہ لارڈ کے ہاتھوں سے یوں پھسلا تھا جیسے ہاتھ سے گیلا صابن۔ وہ کچھ دن چھپا رہنا چاہتا تھا تاکہ لارڈ کی سرگرمیوں کی رپورٹ ملنے کے بعد ہی اگلا قدم اٹھائے اور اسی دوران وہ  اسلامک بلاک کی کانفرنس سے غائب ہونے والے دس اہم افراد کو تلاش کر کے ٹھکانے لگانے کا سوچنے لگا۔

گمشدہ افراد کی تلاش کےلئے اس نے زیر زمین گروپ کی مدد لینے کا منصوبہ بنایا جبکہ لارڈ کو غلط سمت دوڑانے کےلئے  اس کا الگ ہی منصوبہ تھا۔ ایسا منصوبہ جس پر چلتے ہوئے لارڈ پورے اعتماد سے چلتے ہوئے اندھی کھائی میں گرنے والا تھا۔

 

 ❤

 

 

کچھ دن بعد

 

 

سائیکو اس وقت اپنے نئے اڈے پر بیٹھا ٹی وی چینلز بدل رہا تھا کہ اچانک اس کا ریموٹ والا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا اور منہ حیرت کے مارے کھل گیا۔ ٹی وی پر سٹیٹ حکومت کی طرف سے اسلامک ممالک کی کانفرنس ہو رہی تھی اور اس میں وہ سارے لوگ شامل تھے جو کچھ دن پہلے لاپتہ تھے۔ سب کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے، بہت سے ممالک اس کانفرنس میں دی گئی تجاویز پرمبنی معاہدہ پر دستخط کر رہے تھے۔ کسی بھی شخص کے چہرے سے یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ اسے اغواء کیا گیا ہے یا اس پر کوئی حملہ کیا گیا  ہے۔اس مختصر سے تقریب کے بعد وزیرِ اطلاعات و نشریات ڈائس پرآئے ۔

" لوگوں کو یہ اچانک ہونے والی کانفرنس ایک بہت بڑا دھچکامحسوس ہوئی ہو گی او ر یقیناََ ان لوگوں کے لیے تو ڈوب مرنے کا مقام ہو گیا جنہوں نے ہمارے اسے بھلائی سے بھرپور منصوبے کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ اس قوم میں بھی سرفروشوں کی کمی نہیں ہے۔ایسے ہی سرفروش اس کانفرنس کی کامیابی کے پیچھے ہیں۔ ہم اپنے ملک کے اس خفیہ ادارے، ہر دوست ملک کے مہمان اور سب سے بڑھ کر ہر اس ملک کے ممنون ہیں جنہوں نے ہماری گزارشات کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے اس کانفرنس کا کامیاب کرنے میں ہماری مدد کی۔ اپنی عوام سے معذرت خواہ ہیں کہ کچھ وجوہات کی بنا پر ہم نے کچھ باتیں راز میں رکھیں جس وجہ سے ایک  طرح سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے مگر یقین جانیئے جو معاہدہ آج ہوا ہے یہ ہماری آنے والی نسلوں کی بہتری کا معاہدہ ہے، اس سے ہم ایک مضبوط اور محفوظ بلاک بن کر ابھریں گے۔ اس معاہدے کا اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہی لگا لیں کہ ابھی اس پربات چیت شروع ہوئی تھی تو کانفرنس پربم سے حملہ کیا گیا۔ اس طرح کے مسائل سے بچنے کے لئے ہمیں کچھ خفیہ اقدامات کرنے پڑے اور پھر ان اقدامات پرپردہ ڈال کر مخالفین کے نشتر سہنے پڑے۔آخر میں ،مَیں اپنی قوم اور اس قوم کے سرفروشوں کو مبارک باد دینا چاہتا ہوں جن کے یقین اور عملِ پیہم سے آج ہم اپنے مقصد کی بنیاد عملی طور پر رکھ چکے ہیں، شکریہ"--- وزیر صاحب کے ڈائس سے ہٹتے ہی تالیوں کا ایک طوفان پربا ہو ا ۔

" اس کے پیچھے ایک ہی سر فروش ہے---میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔" تالیاں سن کر سائیکو کا خون کھول اٹھا۔

وہ سمجھتا تھا کہ یہ سب لارڈ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے---مگر کیسے؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ سائیکو نے ریموٹ کھینچ کر ٹی وی پردے مارا۔اس کا مشن فلاپ ہو چکا تھا ، اس نے غصے میں آکر دیوار کے ساتھ لگی بڑی سے ایل سی ڈی کو کھینچ کر اتارا اور سر سے بلند کر کے زمین پردے مارا ۔۔ہاہاہاہاہاہا۔۔۔ہاہاہاہاہا۔۔۔ٹوٹی ہوئی سکرین پر پاؤں مارتے ہوئے وہ قہقہے لگانے لگا۔

"ہاہاہاہاہا۔۔مزہ آ گیا۔۔اس نے مجھے کھل کر بیوقوف بنایا۔۔مگر فارمولا تو میرے پاس ہے۔۔  اسے فارمولا تو نہیں  ملے گا۔اس کے برعکس میں اسے ایسا جھٹکا دے کر اس ملک سے جاؤں گا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔ہاہاہاہاہا۔۔" سائیکو اپنی ہار کا جشن منا رہا تھا۔اس نے ساتھ پڑی تپائی پرموجود فون کا ریسیور اٹھایا اور نمبر ملایا۔

"یس ۔۔۔"دوسری طرف سے سخت آواز سنائی دی۔

"سائیکو سپیکنگ۔۔۔" سائیکو نے بڑے مزاحیہ انداز میں کہا۔

"ی۔یس۔یس باس۔"۔

"شاید تم لوگوں کی اوقات سے بڑا کام دے دیا تھا۔"۔ سائیکو نے دانت نکوستے ہوئے کہا۔

"بب۔ب۔بب۔۔ب۔۔۔باس۔۔۔۔"

"بکواس بند کرو، تم مجھے تسلی دیتے رہے کہ جلد ہی پتہ چل جائے گا اور ادھر کانفرنس ہو بھی گئی۔ وہ دس کے دس لوگ شامل ہیں۔"۔ سائیکو دھاڑا۔

"بب۔۔ب۔باس اتنا ۔۔و۔۔وقت ہی کہاں ملا ہے ،آج تیسرا دن ہے۔"۔ دوسری طرف سے سہم کر جواب دیا گیا۔

" ڈیل کینسل بچے۔"۔ کہتے ہوئے اس نے ریسیور کریڈل پر مارا اور ساتھ ہی قہقہے لگانے لگا---- تھوڑی دیر وہ پاگلوں کی طرح ہنستا رہا اور پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر جیسے زبردستی قہقہے روکتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے ریسیور اٹھا کر بڑی مشکل سے نمبر ملایا۔

"یس۔۔"۔

"سائیکو۔"۔

"اوہ۔۔یس باس۔۔حکم باس۔۔" دوسری طرف سے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا گیا۔

"مجھے وہ فارمولا چاہیئے۔۔" سائیکو نے کہا۔

"یس باس۔۔جب اور جہاں آپ حکم کریں۔۔"

" ایک ایڈریس بتاتا ہوںوہاں بھجوا دو۔" سائیکو نے اس بار سنجیدہ لہجے

 میں کہا  اور ایڈریس بتا کر کریڈل دبا کر دوبارہ نمبر ملایا۔

"جیکی سپیکنگ۔۔" ایک بھاری آواز سنائی دی۔

"سائیکو سپیکنگ۔۔رابرٹ کی نگرانی کرو۔۔وہ ایک باکس بھجوائے گا،

اس میں فارمولا موجود ہے جس کے بارے میں تمہیں میں نے پہلے ہی بتا رکھا ہے، وہ فارمولافول پروف انداز میں میرے پاس پہنچاؤ۔" سائیکو نے کہا اور اوکے کا جواب سن کر اس نے ریسیور رکھ دیا ۔وہ  اسی طرح ایک گھنٹہ ٹی وی کے سامنے بیٹھا منہ بسورے وقت گزارتا رہا۔دروازے کے کھلنے کی آواز سن کر اس کے کان کھڑے ہو گئے مگر وہ اپنی جگہ سے ہلا نہیں۔

"باس۔۔جیکی یہ فائل دے گیا ہے۔" ایک مودبانہ آواز سنائی دی تو سائیکو نے سائیڈ ٹیبل کی طرف اشارہ کیا۔ ملازم وہاں فائل رکھ کر کمرے سے نکلا تو سائیکو نے جھپٹ کر فائل اٹھائی۔

"میرا بچہ۔۔" اس نے فائل کو والہانہ انداز میں چومتے ہوئے ممتا بھرے لہجے میں کہااور فائل کھولی۔۔جیسے جیسے وہ فائل پڑھتا جا رہا

تھااس کے تیور بدلتے جا رہے تھے۔ فائل نقلی تھی۔ اس کا کَور بالکل وہی تھا جو پہلے تھا، فائل کے اندر کے کاغذات کسی نے بدل دیئے تھے۔

"اوہ۔۔یہ تو کسی اور کا بچہ نکل آیا۔" سائیکو نے غصیلے لہجے میں فائل کو مروڑتے ہوئے کہا۔وہ چند لمحوں کے لئے گہری سوچ میں ڈوب گیا ، آہستہ آہستہ اس کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔

" لارڈ کا بچہ---" سائیکو نے چیخ کر کہا اور فائل دیوار پر دے ماری۔اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور اس وقت وہ ہوش سے عاری ---ایک وحشی پاگل نظر آرہا تھا۔

" لارڈ کو اس کا جواب دینا پڑے گا۔اسے یہ دھوکا مہنگا پڑے گا۔اس کے ساتھ ساتھ رابرٹ کو بھی مرنا پڑے گا۔میں سب کو موت کے گھاٹ اتار دوں گا۔۔ہاہاہاہاہا۔۔۔" سائیکو یکلخت ہذیانی انداز میں قہقہے لگانے لگا۔پھر وہ دھیرے دھیرے نارمل ہوتا گیا ، اس کے فراخ پیشانی پرسلوٹیں ابھری ہوئی تھیں، جو ظاہر کرتی تھیں کہ وہ کچھ سوچ رہا ہے۔پھر وہ   بھینسوں کی طرح منہ ہلاتے ہوئے اٹھا اور ساتھ والے کمرے میں گھس گیا۔ جب وہ کمرے سے نکلا تو اس کے جسم پر بہترین تراش خراش کا سوٹ موجود تھا اور وہ مقامی میک اپ میں تھا۔ چہرے پر معصومیت تھی اور شکل و صورت کے اعتبار سے کافی پرکشش نظر آرہا تھا۔اس نے میز کی دراز کھولی اور پسٹل نکال کر کوٹ کی خفیہ جیب میںرکھا اور باہر نکلا۔

 

"آج تو گرین سروس کا خاتمہ ہو کر رہے گا۔" وہ ہنستے ہوئے چیخا۔

 

❤ 


ایوانِ صدر میں آرمی چیف، آئی بی چیف، اور وزیرِ دفاع موجود تھے۔ وہ دھیمے لہجے میں بات چیت کر رہے تھے۔عوام کی طرح وہ بھی حیرت کا شکار تھے کہ کانفرنس کے شرکاء کو کہ غائب ہو ئے تھے وہ کہاں  گم ہوئے تھے اور واپس کیسے آ گئے اور اچانک ہی سب معاملات طہ پا گئے تھے۔وہ اس معاملے میں جتنے بھی متجسس ہو لیتے ، ان کے پاس کوئی جواب بھی نہیں تھا۔کچھ دیر بعد دروزاہ کھلا تو صدرِ مملکت ، ان کے پیچھے وزیرِ اعظم ، جن کے ساتھ کرنل بیگ بھی تھے، وہ اندر داخل ہوئے۔ صدر صاحب کے داخل ہوتے ہی سائیڈ پر موجود چھوٹا سا دروازہ کھلا اورصدر صاحب کے اندر آنے پر اپنی کرسیوں سے کھڑے ہونے والے لوگوں کی نظر اس دروازے کی طرف اٹھی اور آنکھوں میں حیرت کی جھلک نظر آئی۔ سامنے لمبا تڑنگا  لارڈ اپنے مخصوص لباس میں موجود تھا، اس کے چہرے پر اس بار سنہرے کی بجائے سیاہ رنگ کا نقاب تھا ، جس پر گاگلز کی جگہ اس بار بہت ہی نفاست کے ساتھ خاص قسم کا شیشہ جڑا گیا تھا ۔وہ اپنی مخصوص کرسی پر براجمان ہوا ، اس سے پہلے ہی صدر اور وزیرِ اعظم صاحب بیٹھ چکے تھے جبکہ کرنل بیگ اور باقی لوگ بھی ان کے بیٹھتے ہی اپنی نشستوں پرجم گئے۔

"یہ غیر سرکار ی میٹنگ ہے اس لئے ریلیکس رہیں--- کیسے ہیں سب لوگ؟"---  صدر صاحب نے مسکرا کر کہا۔

"الجھے ہوئے ہیں سر--- اس کانفرنس کے حوالے سے ہونے والی کارروائی ہمار ی سمجھ سے بالاتر ہے۔" آرمی چیف نے کہا۔

"انٹیلی جنس کیا کہتی ہے اس بارے میں؟" --- صدر صاحب نے کرنل عابد سے پوچھا جو کہ آئی بی کے سربراہ تھے۔

"سر--- ایسے شواہد ہیں کہ اس عمارت میں بم لگانے کے لئے اندر کے

لوگوں نے مدد کی ہے اور وہاں سے جو لوگ غائب ہوئے تھے وہ تو لازمی طور پراپنی مرضی سے وہاں سے نکلے تھے، انہیں زبردستی نہیں لے جایا گیا۔سب کچھ ایسے ہوا ہے کہ لگتا ہے کانفرنس کا ہر شخص پہلے سے جانتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے اور کب ہونے والا ہے۔ اور تو اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔" کرنل عابد نے سنجیدہ لہجے میں کہا تو صدر صاحب کے چہرے پرتعریفی چمک ابھری۔ کرنل بیگ کے چہرے پربھی مسکراہٹ تھی۔

"ویری گڈ--- اس کا مطلب ہے کہ ہمارے ہاں ذہانت کی کمی بالکل بھی نہیں۔" صدر صاحب نے مسکرا کر کہا تو کرنل عابدکا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔

"تو کیا واقعی ہی ایسا ہوا ہے جیسا کرنل صاحب نے کہا ہے؟"---  وزیرِ دفاع، حسن امیر نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔

"بالکل--- وہ ساری کارروائی کسی مجرم نے نہیں کی تھی، ہمارابھی کچھ حصہ تھا۔" صدر صاحب نے کہا تو وہ سب اچھل پڑے۔

" لارڈ--- اب سب کو بتادینے میں کوئی حرج نہیں۔" صدر مملکت نے کہا تو سب نے چونک کر لارڈ کی طرف دیکھا۔

"یس سر--- میں واقعات کا خلاصہ بتانا کرنا چاہوں گا--- جب مجھے کانفرنس اور اس کا ایجنڈ ا پتہ چلا تو میرے ذہن میں فوری خیال بیٹھ گیا کہ اس کانفرنس کو خراب کرنے کی ضرور کوشش کی جائے گی ، اس خدشے کے پیشِ نظر میں نےایسے ممالک میں اپنے رابطے شروع کئے جہاں سے اس کانفرنس کے خلاف کچھ ہونے کا خدشہ ہو۔اس طرح کی طویل چانچ پڑتال کے بعد آخر کار ایک ملک سے ایسے شوائد ملے جیسے انہوں نے کسی پرائیویٹ تنظیم کو اس کانفرنس کی تباہی کے لئے ہائر کیا ہو۔ ڈھونڈنے کے باوجود بھی میرے کسی بھی سورس کو اُس تنظیم کا کوئی سراغ نہ ملا تو میں خود قومی سیکرٹریٹ کی نگرانی کر نے لگا۔ معاملات کیونکہ  شک تک محدود تھے تو میں نے اپنی ٹیم کو اس میں شامل نہیں کیا تھا۔ دورانِ نگرانی مجھے وہاں مشکوک افراد نظر آئے تو مسلسل تین چار روز سے کانفرنس کی انتظامیہ کی شکل میں آتے مگر عمارت کو بڑے خاص انداز میں چیک کرتے تھے۔ میں نے انہیں چھیڑا نہیں بلکہ ان کا خاص خیال رکھا۔ ان کی نگرانی سے مجھ پریہ عقدہ کھلا کہ وہ عمارت میں ڈائنامائٹ سیٹ کرنا چاہتے ہیں۔اس خیال کی وجہ ان کا انداز تھا، وہ عمارت کے ان حصوں کو چیک کر رہے تھے جہاں نگرانی بھی کم ہو اور ایسی جگہ ہو جہاں بم پھٹنے سے پوری عمارت تباہ ہو جائے۔ یہ صورتحا ل دیکھ کر میں نے ایک پلان بنایا، اس میں صدر صاحب اور وزیرِ اعظم صاحب نے میری بھرپور مدد کی۔  ہم نے مجرموں کو چھیڑے بغیر اہم لوگوں سمیت وہاں سے غائب ہونے کا پلان بنایا۔ کانفرنس کی صبح مجرموں نے بم فٹ کر دیا۔ اس بم کی طاقت اتنی تھی کہ عمارت کی اینٹ اینٹ اکھڑ کر ریزہ ریزہ ہو جاتی۔ میں نے اس بم کو ہلکی پاور کے بم کے ساتھ بدل دیا جس سے صرف عمات کا خاص حصہ ہی تباہ ہوا اور مجرم کچھ دیر کے لئے ریلیکس ہو گئے کہ ان کا پلان کام کر گیا۔ دھماکے کے بعد پی ایم صاحب کی سربراہی میں کانفرنس میں شریک اہم لوگوں کو ایک خفیہ راستے سے عمارت سے بہت دور ایک کوٹھی میں نکالا گیا اور سب کا فرداََ فرداََ میک اپ کر کے، فرضی پاسپورٹ پرسب کو ان کے گھر پہنچا دیا گیا۔ انہی فرضی پاسپورٹس پر اس بار وہ سب واپس آئے ، اور اسی کوٹھی میں آ کر میک اپ صاف کیا اور خفیہ رستے سے ہو کر عمارت میں پہنچ گئے جہاں معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس کے بعد وہ اپنے ممالک نکل گئے۔" لارڈ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا ، وہ لوگ جو پہلی بار یہ سب سن رہے تھے وہ تو باکل سُن ہو چکے تھے جبکہ کرنل عابد بے یقینی سے لارڈ کی طرف دیکھ رہے تھے ---ان کے سامنے ون مین آرمی قسم کا شخص بیٹھا تھا۔

" سوری مسڑ لارڈ--- مگر میڈیا کے کچھ نمائندے تو ابھی تک لاپتہ ہیں؟" آرمی چیف نے کہا۔

"انہیں چھوڑا جاتا تو پلان لیک ہو جاتا۔اب تک وہ سب بھی واپس پہنچ چکے ہوں گے۔" لارڈ نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔

"اگر آپ پہلے سے یہ سب جانتے تھے تو پھر حکومت کو باقاعدہ اس کانفرنس کی حفاظت کرنے کا کام کیوں نہیں دیا گیا؟ --- ملک کی بدنامی کیوں کروائی گئی؟"---  وزیرِ داخلہ نے پوچھا۔

"اس طرح ہم سکیورٹی تو سب کو دے لیتے مگر چھوٹی سے بھول چوک سے بھی یہ معاہدہ خطرے میں پڑ جاتا۔مجرم کوئی بھی رستہ چن سکتے تھے۔ جو کام ہم نے کیا ہے اس کی وجہ سے مجرم اب تک الجھے ہی رہے ہوں گے۔" وزیرِ اعظم نے بات میں شریک ہوتے ہوئے نرمی سے جواب دیا تو سب نے اثبات میں سر ہلایا۔

"پھر گرین سروس کو جو ڈیڈ لائن دی گئی تھی مجرموں کو پکڑنے اور مغویوں کو رہا کروانے کی ۔۔وہ سب دکھاوا تھا؟"  --- سرحسن امیر نے پوچھا۔

"بالکل--- ہم کسی بھی لمحے مجرموں کو کوئی کلیو نہیں دینا چاہتے تھے۔اس ڈیڈ لائن کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ مسٹر لارڈ اس مجرم تک پہنچ چکے ہیں جو یہ سب کر رہا ہے۔" صدرِ مملکت نے کہا۔

"تو کیا وہ پکڑا گیا؟۔"۔  کرنل عابد نے چونک کر پوچھا۔

"وہ فرار ہے لیکن میری نظروں میں ہے۔ جلد ہی پکڑا جائے گا۔"۔

"ایک اور سوال سر، سرحد کے قریب جو اڈہ تباہ ہوا ہے کیا اس کا اس کیس سے کوئی تعلق ہے؟۔"۔  کرنل عابد نے صدرِ مملکت کی طرف دیکھا۔

"نہیں، وہ الگ معاملہ ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ گرین سروس نے ایک طرف اسلامک فورم یا مسلم بلاک بنانے میں مدد کی تو دوسری طرف ایک خطرناک گروہ کو ختم کر دیا۔"۔ صدرِ مملکت کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔

"لیکن مجرم ابھی بھی آزاد ہے---  یہ ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟"۔ آرمی چیف نے ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔

"بقول لارڈ کے--- اس مجرم کے پاس اب کوئی ٹارگٹ یا رستہ نہیں ہے، جلد ہی پکڑا جائے گا۔" صدر ِ مملکت نے کہاتو لارڈ یہ جملہ سن کر نجانے کیوں چونک پڑا۔--- جیسے اس بات سے اس کے ذہن میں کسی نئے خیال نے جنم لیا ہو۔

"اس کیس میں لارڈ اور ان کی ٹیم کی کامیابی پر ہماری طرف سے سب کو مبارکباد--- گرین سروس کی قابلیت نکھر کر سامنے آ رہی ہے جو ہمارے لئے خوش آئند بات ہے۔ہماری کوشش ہے کہ نہ صرف اس تنظیم کے اختیارات بڑھائے جائیں بلکہ اس کا دائرہ کار اور ڈھانچے کو بھی بہتر کیا جائے۔آپ سب کو ہدایت کی  جاتی ہے کہ کسی بھی موقع پر لارڈ کو آپ کی ضرورت پڑے تو آپ ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر سب سے پہلے وہ کام کریں گے جو لارڈ کی طرف سے کہا جائے۔انتظامی طور پرتنظیم پہلے کی طرح اپنے تین بورڈ آف ڈائریکٹرز کے تحت ہی کام کرے گی--- کسی کا کوئی سوال؟"--- 

"اس تنظیم کے اختیارات تو تیزی سے  بڑھا  ئےجا رہے ہیں مگر اس تنظیم کو چیک کون کرے گا کہ تنظیم ٹھیک کام کر رہی ہے یا نہیں؟ ہمارے بھی تو ہر سیکشن پرنگرانی کی جاتی ہے۔" کرنل عابد نے پوچھا------ ان کی بات درست بھی تھی۔

" آپ کی بات سے متفق ہوں۔ہم سب کی زندگی ادھار کی ہے، نجانے کب کسی کی باری آجائےمگرجب تک  لارڈ ہے ، مجھے تنظیم پربھروسہ ہے، کل کو اگر کوئی اور  لارڈ بنے تو اس بارے میں سوچ لیں گے۔قانونی طور پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تنظیم بورڈ آف ڈائریکٹرز کے تحت ہے جس وجہ سے توازن رکھنا آسان ہو گا۔" صدرِ مملکت نے کہا۔

"معذرت کے ساتھ--- اس کا مطلب ہے کہ آپ لارڈ سے ذاتی طور پرواقف ہیں۔" کرنل عابدنے فوری کہا۔

"یس کرنل--- میں کیا آپ سب بھی لارڈ سے واقف ہیں۔ لارڈ وہ شخص ہے جو نیند میں بھی اپنے ملک کے لئے جاگ رہا ہوتا ہے۔مجھے فخر ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں اس عظیم شخص کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔" صدرِ مملکت نے مسکرا کر جواب دیا ۔

ہال میں تالیوں کی آواز بلند ہوئی ۔ تالیوں کی شروعات سر حسن امیر نے کی تھی---جو کبھی کبھار لارڈ سے اختیارات کے معا ملے میں الجھ بھی جاتے تھے--- لارڈ نے سر کو ذرا سا خم کر کے سب کا شکریہ ادا کیا۔

"میرا خیال ہے کہ معاملہ صاف ہو چکا ہے؟"---  انہوں نے سب کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا تو سب نے اثبات میں سر ہلایا۔

"گڈ۔میٹنگ برخاست کی جاتی ہے۔" انہوں نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا تو سب کھڑے ہوگئے۔ جیسے ہی صدر صاحب دروازے کی طر ف مڑے، لارڈ بھی فوری اپنے مخصوص دروازے کی طر ف مڑا اور تیز رفتار--- مگر پروقار چال کی ساتھ دروازے سے نکل گیا۔ سامنے تنگ سی طویل راہداری تھی ، وہ اب برق رفتاری سے چل رہا تھا ۔ جلد ہی وہ راہداری سے نکل کر عمارت کے عقب میں موجود اپنی کار میں پہنچ چکا تھا۔ کار میں پہنچتے ہی اس نے خفیہ خانے سے ایک چھوٹا سا ٹیب نکال کر آن کیا۔ چند لمحوں کے انتظار کےبعد  سکرین روشن ہوئی  تو لارڈ کے چونک گیا۔ سکرین پر بکھرے نقشے پر ایک نکتہ تیزی سے دوڑتا نظر آرہا تھا۔ اس نے بغور معائنہ کیا اور پھر خفیہ خانے  سے ہی  موبائل نکال کر کال ملائی۔

"یس چیف--- " فاکس کی مودبانہ آواز سنائی دی۔

"ممبرز کے پاس ہی ہو؟---"

"یس چیف---"

"خطرہ تیزی سے تمہاری طرف بڑھ رہا ہے، ہوشیار رہنا۔"

 لارڈ نے تیز لہجے میں کہا اور نہ صرف  فون بلکہ نقاب بھی کھینچ کر  کر ساتھ والی سیٹ پر پھینکتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی اور آندھی جیسی رفتار کے ساتھ نکل گیا۔

جیسے ہی صدر صاحب نے وہ جملہ کہا کہ سائیکو کے پاس اب کوئی ٹارگٹ یا رستہ نہیں تو اس کا ذہن فوری اپنی زخمی ٹیم کی طرف گیا--- ---جس پر وہ چونکا تھا۔ سائیکو کا شاطر اور تیز دماغ لارڈ کی دانست میں اسے ٹیم سے دور رکھتا کیونکہ سائیکو اس بات سے آگاہ تھا کہ لارڈ گھات لگا سکتا ہے لیکن دوسری طرف یہ بات بھی نظر انداز نہ کی جا سکتی تھی کہ عام حالات میں وہ ٹیم کی طرف رخ نہ کرتا--- مگر اب وہ ہار چکا تھا، ہارا ہوا سائیکو،ذہنی دباؤ کا شکار ہونے کے بعد شکست کا بدلا لینے اور ذہنی دباؤ سے  آزاد ہونے کے لئے کہیں بھی پہنچ سکتا تھا ۔--- ویسے بھی وہ سائیکو تھا---  لارڈ کے انداز میں بے چینی بالکل بھی نہیں جھلکتی تھی،وہ تھا تو بالکل پرسکون--- مگر اس کی کار سڑک پراڑی چلی جا رہی تھی۔ اسے اپنے اعصاب پر کمال کر کنٹرول حاصل تھا۔ ٹیم کی فکر تو اسے رہتی تھی، مگر اس فکر میں بھی وہ ہوش مند ہی تھا۔وہ جانتا تھا کہ جو ہونا ہے اسے کوئی ٹال نہیں سکتا --- لہذاٰ وہ اپنی کوشش کر رہا تھا مگر پریشانی سے کوسوں دور تھا۔ اس کی تیز رفتار ڈرائیونگ کے پیچھے بھی ایک وجہ تھی۔وہ جانتا تھا کہ سائیکو بہت ہی کایاں آدمی ہے اور وہ فاکس کے بس کا روگ نہیں۔ساحر اسے روک سکتا تھامگر فی الوقت ساحر کی اپنی حالت پتلی تھی۔

 

گزشہ اقساط کے لئے

کلک کیجیے

پی ڈی ایف میں مکمل ناول حاصل کرنے کے لئے 250 روپے ایزی پیسہ کر کے واٹس ایپ پر رابطہ کیجئے۔

03435941383 (واٹس ایپ+ ایزی پیسہ)

(تبصرہ/رائے کے اظہار کے لئے  لنکس)

www.facebook.com/groups/ibnetalib

 

ناول کے تمام کردار، مقامات، واقعات فرضی ہیں اور مصنف کی اپنی تخلیق ہیں۔ جن میں کسی بھی قسم کی کلی یا جزوی مطابقت محض اتفاقیہ امر ہو گا جس کا مصنف ذمہ دار نہیں ۔

ناول کے کسی بھی حصے کو کاپی کرنا، نقل کرنا یا چوری کرنا قانوناََ  اور اخلاقی جرم ہے ۔ جملہ حقوق  اللہ عزوجل اور اس کے پیاروں کے بعد بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔