New Novel ibnetalibs jasoosiovel UrduJasoosi urduspyfiction pdfnovels

a chapter form upcoming novel 


پاک سٹیٹ کا قومی اسمبلی سیکرٹریٹ بھانت بھانت کے لوگوں سے بھرا جا رہا تھا۔سیکرٹریٹ کے ایک بڑے سے ہال میں بڑے منظم انداز میں نشستیں رکھی گئی تھیں۔ نشستوں کے درمیان میں ایک بڑی لمبی ،چوڑی میز موجود تھی جو U شکل اختیار کئے ہوئے تھی۔ ہر نشست کے سامنے میز پرچھوٹے سائز کا  جھنڈا موجود تھا۔جھنڈوں کی تعداد کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ وہاں کم ازکم بیس کے قریب مندوبین براجمان ہونے والے تھے۔ہال میں مسحور کن خوشبو دل موہنے میں اہم کردار ادا کر رہی تھی۔ میز کے گرد موجود نشستوں کے عقب میں دیوار کے ساتھ ایک ترتیب سے کرسیاں موجود تھیں جو شاید مندوبین کے ساتھ آنے والے عملے کے لئے رکھی گئی تھیں۔ اس انتطام کے ساتھ ساتھ ، مرکزی میز جہاں ختم ہوتی تھی ، وہاں سے تھوڑے فاصلے پر بہت سی کرسیاں ، اور ان کے سامنے ڈیسک نما چھوٹے چھوٹے مگر انتہائی خوبصورت میز رکھے گئے تھے۔ یہ جگہ قومی و بین الاقوامی صحافیوں کے بیٹھنے کے لئے مختص تھی۔صحافی آہستہ آہستہ اپنی نشستیں سنبھال رہے تھے کیونکہ اب کانفرنس کا وقت ہو چکا تھا اور کسی بھی لمحے شرکاء کی آمد ہو سکتی تھی۔ صحافیوں کے بیٹھنے میں دس سے پندرہ منٹ گزر گئے، اسی وقت سیاہ سوٹوں اور سیاہ چشموں کے ساتھ سکیورٹی کے بارُعب جوان اپنی مخصوص جگہوں پر کھڑے ہو گئے۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب مہمان کانفرنس ہال میں آنے لگے ہیں اور ایساہی ہوا۔ یکے بعد دیگرے مختلف ممالک کے مدعو شرکاء ہال میں داخل ہونے لگے۔انہیں بہت ہی منظم طریقے سے ان کی مخصوص نشستوں تک پہنچایا گیا۔ جب سب لوگ اپنی نشستو ں پربیٹھ چکے تو پاک سٹیٹ کے وزیرِ خارجہ ،وجدان رانا کھڑے ہوئے اور سب سے مخاطب ہوئے۔

"السلام علیکم اور ہیلو---میں اپنے تمام معزز مہمانوں کو اس کانفرنس میں خوش آمدید کہتا ہوں اور اپنی قوم کی طرف سے آپ سب کا ممنون ہوں کہ آپ نے آواز پر لبیک کہااور یہاں تشریف لائے۔ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ ہم مسلمان  آج کے دور میں اپنے اس مقام سے بہت نیچے جا چکے ہیں جس پرہمارے آباؤ اجداد براجمان تھے۔ اس تنزلی کی وجوہات بہت ساری ہیں اور میرا خیال ہے کہ آپ سب ان سے واقف ہیں۔آپ سب اس امر سے بھی واقف ہیں کہ مسلم دنیا میں چند ایک ممالک چھوڑ کر باقی سب یا تو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں یا پھر دیگر معاشی مسائل سے دو چار ہیں۔ جن ممالک میں معاشی ترقی کرنے کی صلاحیت ہے انہیں کسی نہ کسی طرح سے خانہ جنگی اور نام نہاد دہشت گردی کا سامنا ہے جس وجہ سے وہ لوگ بجائے ترقی کرنے کے، ہر آنے والے دن اپنی جان کھو جانے کے ڈر میں مبتلا ہو کر ذہنی مریض بن رہے ہیں۔ترقی یافتہ دنیا  کے ساتھ چلنے کے لئے ضروری ہو چکا ہے کہ ہر ملک اندرونی و بیرونی طور پر پرسکون ہواور ملک کے چھوٹے سے چھوٹے پیشے سے لے کر اعلی سطح کے پیشوں میں بہتری آئے۔جن ممالک میں اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، ان ممالک میں جرائم میں بھی آئے روز اضافہ ہو رہا ہے اور ان ممالک کو مستقبل میں طاقتور ریاستوں کی طرف سے نگل جائے جانے کا بھی خدشہ ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ہر حکومت کا زیادہ تر بجٹ بھی ملکی ڈیفنس سسٹم پر خرچ ہو جاتا ہے اور ہر سال ملک آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کو جا رہا ہے۔اگرچہ ہر ملک اپنی عوام کی بھلائی چاہتا ہے لیکن جب ملک کی آمدنی اس کے خرچوں سے زیادہ ہوتی ہے تو نہ تو عوام کو بنیادی سہولیات میسر آتی ہیں اور نہ ہی کوئی انفراسٹرکچر میں بہتری آتی ہے۔ ان مسائل کو حل کرنےکے لئے پھر بین الاقوامی معاشی اداروں کا رخ کیا جاتا ہے جو سود کی بنیاد پر ملکی سطح پر قرضے جاری کرتے ہوئے اس ملک کی معاشی سرگرمیوں اور پالیسیوں کا اختیار  اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کا خون چوسنے میں چُٹ جاتے ہیں۔یہ قرضے نسل در نسل چلتے رہتے ہیں اور انسان، جو خود کو ماڈرن سمجھتا ہے، وہ اسی دقیانوسوی سودی چکر میں پھنس جاتا ہے جو کبھی رکتا ہی نہیں۔آج کی اس کانفرنس کا مقصد اسلامی ممالک میں ایک تجارتی اور دفاعی پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہے۔ پرائم منسٹر صاحب آتے ہی ہوں گے، وہ یہ بریفنگ پہلے سے ہی جانتے ہیں اور آپ سب کو بھی کانفرنس سے چند روز قبل ایجنڈا سے آگاہ کر دیا گیا تھا، میں چاہوں گا کہ آپ اس حوالے سے کھل کر بات کریں۔"---- وجدان رانا نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا، اسی وقت ہال کا دروازہ کھلا اور پرائم منسٹر صاحب اپنے پی اے کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔ تمام لوگوں نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور پرائم منسٹر شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی مرکزی نشست پر براجمان ہوئے، ان کے بیٹھتے ہی سب لوگ بیٹھ گئے۔

"میں نے کچھ مِس تو نہیں کیا؟"---- پی ایم نے مسکرا کر وزیرِ دفاع سے پوچھا۔

"نو سر-- ابھی بات شروع ہوئی ہے۔"----  وجدان رانا نے  مودبانہ انداز میں جواب دیا۔

"جنٹلمین ---میں ایک میٹنگ میں مصروف تھا جس وجہ سے میرے آنے میں دیر ہو گئی، امید ہے آپ محسوس نہیں کریں گے،چلیے اپنے مدعا پر بات شروع کرتے ہیں۔" پی ایم صاحب نے باوقار انداز میں بات شروع کی۔

"سر--ہم سب کانفرنس کے ایجنڈے اور محترم وجدان رانا صاحب کی باتوں سے متفق ہیں۔ ان مسائل کے لئے ہماری طرف سے جو بھی تعاون درکار ہو ، ہم حاضر ہیں۔"---- ایک مسلم ملک کے نمائندے نے کہا۔

"دیکھئے ۔۔میرا خیال ہے کے متفق تو سبھی ہوں گے، اصل معاملہ ہے ان مسائل کا حل۔ ہماری نظر میں اولین ترجیح معاشی ترقی و استحکام اور دفاعی نظام کی مضبوطی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی ملک کی نظر میں کوئی اور بھی قابلِ ذکر مسئلہ ہے، جس کے حل سے ملکی سالمیت پر خاطر خواہ مثبت اثر پڑ سکتا ہے  تو اس پر بھی بات کی جا سکتی ہے۔ فی الوقت ہمارے اکھٹے ہونے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے آپس میں اکھٹے ہو کر کام کرنا چاہتے ہیں تو کن شرائط پر ایسا کیا جائے گا۔ اس امر کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کا اس معاہدے سے استحصال نہ ہو۔"----  پی ایم صاحب نے صاف گوئی سے مرکزی نکتے پر سب کی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی۔

"سر۔۔آپ نے جن دو مسائل پر بات کی ہے، ہماری نظر میں بھی یہی

دو مسائل اہم ہیں۔" ایک اور نمائندے نے کہا تو سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

"پھر اس سے اگلامرحلہ ہے ان مسائل کا حل سوچنا۔ اس بارے میں آپ اپنی قیمتی آرا دیں۔" ---- پی ایم صاحب نے مسکرا کر کہا۔

"سر معاشی ترقی کے لئے اندرونی  طور پر تو ہر ملک خود ہی بہتر ہو سکتا ہے۔ "---- ایک معمر نمائندے نے کہا۔

"آپ کی بات درست ہےلیکن ہم ایک دوسرے کی مدد بھی تو کر سکتے ہیں۔ جو ملک معاشی طور پر مستحکم ہیں، ان کے ماہرین کو اپنے ہاں مدعو کیا جا سکتا ہے جو متاثرہ ملک میں آ کر تحقیق کریں اور معاشی مسائل کا حل بتائیں۔ یا پھر اپنے طلبہ کو ترقی یافتہ ممالک میں تربیت کےلئے بھیج سکتے ہیں۔" ---- پی ایم صاحب نے متانت بھرے لہجے میں کہا تو ہر شخص نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔

"سر۔۔مسلم ممالک کی بہت سے ممالک سے ان گنت درآمدات ایسی ہیں جن کی پیدوار دوسرے مسلم ممالک میں بھی ہے لیکن ہم ایک دوسرے کی مصنوعات خریدنے کی بجائے غیر مسلم ممالک کی

مصنوعات خریدکر نام نہاد بڑا پن دکھاتے ہیں۔" ایک اور ممبر نے کہا۔

"میں آپ کی بات سے متفق ہوں بھی اور نہیں بھی۔ آپ کی بات سچ ہے لیکن اس کے پیچھے بہت سے محرکات ہیں۔سب سے بڑا محرک تو آپ نے واضح کر دیا کہ ہم سٹیٹس شو کرنے کے لئے ایسی مصنوعات خریدتے ہیں، دوسری چیز کوالٹی ہے۔ ہم لوگ کوالٹی اور مقدار میں بھروسے مند نہیں رہ گئے۔ ہماری دیانتداری نہ ہونے کے برابر ہے۔" پی ایم نے کہا۔

"معذرت کے ساتھ ۔۔سر۔۔اس مسئلہ کی وجہ بھی ہم لوگ خود ہی ہیں۔ جو ایمانتداری سے کام کرتا ہے اسے ملتا بھی کچھ نہیں۔" ایک ممبر نے کہا۔

"بجا فرمایا آپ نے، اس کی وجہ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم اور ضروریات ِ زندگی کا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہونا ہے۔ اس کا حل کیا ہے؟"---- پی ایم نے استفہامیہ نظروں سے سب کی طرف دیکھا۔

"سر۔۔میرے خیال سے جب تاجروں اور کاروباری لوگوں کو یہ معلوم

 ہو کہ ان کی چیز اگر کوالٹی سے بھرپور ہوئی تو انہیں زرِمبادلہ بھی اسی لحاظ سے ملے گا تو چیز کوالٹی کی ہی ملے گی۔ اگر بات کریں کہ تجارت کو کیسے بہتر کر سکتےہیں تو میرا خیال ہے کہ مسلم ممالک کو آپس میں کم از کم کسٹم اور اس طرح کے دیگر ٹیرف ختم کر دینے چاہئیں یا بالکل معمولی ہونے چائیں۔ ایساکرنے سے درآمد شدہ چیز کی قیمت کم ہو گی تو لوگ خود بخود مہنگی چیز کے بدلے اس چیز کو ترجیح دیں گے جو سستی ہے اور اگر وہ سستی چیز کوالٹی کے اعتبار سے درست پائی گئی تو خود بخود مارکیٹ میں قائم ہو جائے گی۔"---- سٹیٹ  کے وزیرِ صنعتی امور نے بات میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔

"ویری گڈ۔۔بہت اچھی تجویز ہے۔" پی ایم صاحب نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔

" جو ملک ٹیرف وغیرہ ختم کرے گا، اس کا نقصان بھی ہو گا۔ فرض کریں کہ ہم کسی ملک سے گندم منگواتے ہیں۔ جس ملک سے گندم منگوائی جا رہی ہے وہاں گندم بہت سستی ہے اور ہمارے ملک میں گندم کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ جب ملک میں سستی گندم آ جائے گی تو ہمارے ملک کا کسان کدھر جائے گا؟----  اس کی مہنگی گندم کوئی بھی نہیں خریدے گا، اور ہم جانتےبھی ہوں گے کہ اس کی گندم مہنگی ہونے کی وجہ اس کے اخراجات ہیں۔" وزیرِزراعت نے کہا۔

"اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ بارٹر سسٹم کے بارے میں تو آپ سب جانتے ہوں گے، مصنوعات کے بدلے مصنوعات کی تجارت-- ہم اس کو آج کے لحاظ سے بدل کر اپلائی کریں

گے، یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔اس پر میری بات ہو چکی ہے۔" پی ایم صاحب نے کہا۔

"آپ ہم سے بھی شئیر کر لیں پھر وہ بات---- " ایک ممبر  نے کہا۔

"ضرور کی جائے گی لیکن تب جب معاہدے کا وقت آئے گا۔ جو ممالک اس معاہدے کا حصہ ہوں گے انہیں سب بتایاجائے گا۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ احتیاط کیوں برتی جا رہی ہے۔" پی ایم نے کہا۔

"سر۔۔میرے خیال سے معاشی معاملا ت کی بہتری کے لئے یہ تجویز

بہت اچھی ہے کہ مسلم ممالک مل کر----  فری ٹریڈ زون  بنائیں۔اس کے علاوہ اجتماعی طور پرایسا فنڈ قائم کیا جاسکتا ہے جس سے کمزور ممالک کو بلاسود قرضہ دیا جا سکے تاکہ وہ سود کے خونی پنجوں سے بچ سکے۔" وزیرِ خزانہ نے کہاتو اکثریت نے اس کی بات کی تائید کی۔

"اب آئیں دوسرے مسئلے کی طرف ---- دفاعی مسائل اور اخراجات---- جو ممالک اس فیلڈ میں کمزور ہیں ان پرصیہونی  طاقتیں کسی نہ کسی طرح قبضہ کرنا چاہتی ہیں، اس کا کیا حل ہو سکتا ہے؟"----  پی ایم نے پوچھا۔

"مشترکہ فوج---- "ایک ممبر نے فوری کہا۔

"ناقابلِ عمل تجویز نہیں ہے لیکن اس میں بہت سے پیچیدگیاں ہیں، اگر انہیں برداشت کیا جائے تو یہ بہت اچھا مشورہ ہے۔" وزیرِ دفاع حسن امیر نے بات میں شامل ہوتے ہوئے کہا۔

 وہ شروع سے خاموش تھے، اب جب ان سے متعلق بات شروع ہوئی تو وہ بول پڑے۔

"اس کے علاوہ؟" پی ایم صاحب نے سب کی طرف دیکھا۔

"اجتماعی جنگی مشقیں  بھی اس کا حل ہیں۔ میرے خیال سے تو معاشی مسائل کے حل سے وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔" ایک ممبر نے کہا۔

"آپ کی بات درست ہے۔کوئی اور تجویز؟"----  پی ایم صاحب نے کہا۔

" ایک اور تجویز بھی ہے۔تم سب جو چاہتے ہو وہ کبھی بھی نہیں کرسکو گے---- تم لوگ کیا اپنا حفاظتی سسٹم ٹھیک کرو گے---- اس کانفرنس کو تو تباہی سے بچا نہیں سکو گے۔" صحافیوں کی طرف سے ایک طنزیہ آواز بلند ہوئی جسے سن کر سب سکتے میں چلے گئے۔ ایک سوٹ پہنے یورپی شخص کھڑا ہو چکا تھا، اس کا ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں تھا۔ اس کی بات سنتے ہی گارڈز اس کی طر ف بڑھے۔

"وہیں رک جاؤ،میری انگلی پر تم سب کی جان اٹکی ہوئی ہے---- خبردار جو ایک بھی قدم میری طرف بڑھایا۔"----  اس شخص نے قدم پیچھے کی طرف اٹھاتے ہوئے کہاتو گارڈز ٹھٹک کر رک گئے۔

"تم لوگوں کا مسئلہ یہی ہے کہ ہمیشہ زبانی دعوٰے کرتے رہتے ہو۔کام تم لوگوں سے ہوتا نہیں، مفت عیاشی کے لئے یہ ڈھونگ رچانا شروع کر دیتےہو۔تم جو مرضی کر لو---- رہو گے ہمیشہ ہمارے غلام ہی۔"----  اس نے نفرت بھرے انداز میں تھوکتے ہوئے کہا۔

"کیا چاہتے ہو تم؟"----  پی ایم نے سردلہجے میں پوچھا۔ہال میں سراسیمگی پھیل چکی تھی، ہر شخص کو جیسے سامنے موت نظر آرہی تھی۔ وہ سب پھٹی پھٹی نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور بار بار بے چینی سے کرسیوں پر پہلو بدل رہے تھے۔

"تم سب کی موت---- " اس شخص نے زہریلے لہجے میں کہا۔

"تمہیں کس نے بھیجا ہے؟"----  پی ایم صاحب بے خوفی سے اس سے بات چیت میں مصروف تھے۔

"موت خود ہی آتی ہے---- سلیٹ زندہ باد---- " اس نے زور سے نعرہ لگایا اور کوٹ کی جیب سے ہاتھ باہر کھینچا۔ اس کے ہاتھ کھینچتے ہی ہر طرف سے چیخیں بلند ہوئیں اور ایک کان پھاڑ دھماکا ہوا، ایسا دھماکاکہ پوری عمارت کے درو دیوار ہل گئے۔عمارت کی چھت دھماکے سے اڑی اور ساتھ ہی ہر طرف آگ لگ گئی۔ جلد ہی آگ کے شعلے دور تک نظر آنے لگے۔ وہ لوگ جو اپنی عوام کی بہتری کے لئے اکٹھے ہوئے تھے انہیں ایک لمحہ میں ٹنوں ملبے میں دفنا دیا گیا تھا، ہر طرف سائرن گونج رہے تھے اور لوگ دور کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔